YouGov Membership

Share Your Point of View and Help Make World a Better Place
Click Here to Be Part of the Team, Be a YouGoverner!

Sunday, June 6, 2021

کرونا/کوویڈ ہمیں قریب لایا


Covid یا کرونا وائرس جس نے تاحال اپنی آمد سے لے کر اب تک دنیا میں تہلکہ مچایا ہوا ہے. چین کے شہر Wuhan سے پھوٹنے والا یہ عذاب اب تک نجانے کتنے لوگ اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، لیکن پھر بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق، اب تک پوری دنیا میں تقریباً تیس لاکھ کے قریب لوگ لقمہ اجل ہو چکے ہیں- 

دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس چھوٹی سی مخلوق  کے آگے زیر ہو چکی ہیں، جبکہ ان ممالک میں جدت کی ریل پیل ہے- سپر پاور، ایشیائی ٹائیگر اور ناجانے کتنے ہی خوبرو القابات سے نوازے جانے والے یہی یورپی، امریکی اور ایشیائی ممالک اب تک کی کوششوں کے باوجود یہی کرسکے ہیں کہ لاک ڈاؤن کردو، کرفیو لگا دو، اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو جو، بلا ضرورت  باہر نہ جاؤ، بار بار ہاتھ دھو- گوہ کہ اب بہت سے ملکوں میں ویکسینیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن پھر بھی یہ وائرس لوگوں کے کنٹرول میں نہیں آرہا بلکہ بھارت میں تو Double Mutant نامی ایک نیا وائرس نکل آیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے حالات بہت خراب ہیں-

Indian Double Mutant

لیکن کیا یہ کورونا وائرس صرف ایک بیماری ہے یا ہماری لئے ایک لمحہ فکریہ، ایک سوچنے کا موقع کہ ہم اپنی اپنی زندگیوں پر غور کریں، اس کو سدھارنے کی کوشش کریں- یقیناً آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس مصیبت کی گھڑی میں کیا باتیں کر رہا ہوں، کہاں کے قلابے کہاں ملا رہا ہوں- مگر کچھ پل کیلئے میری بات پر ذرا دھیان دیں- اس کرونا لاک ڈاؤن سے پہلے ہم اپنی مصروف زندگی میں سے کتنا وقت اپنی فیملی کیلئے نکل پاتے تھے، کتنا وقت خود کیلئے اور کتنا وقت رب کیلئے نکل پاتے تھے؟

اس کرونا نے ہمیں اس طرف دھکیل ہی دیا ہے؛ آج ہم گھروں میں محصور ہیں تو اپنے گھر والوں کے ساتھ ہیں، Work from Home ہی سہی لیکن کھانے پر تو گھر والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور شام کو بھی کوشش ہوتی ہے کہ چھٹی سے پہلے کام ختم ہوجاے تاکہ لیٹ نہ بیٹھنا پڑے اور وقت گھر والوں کے ساتھ گزرے- پھر ان حالات کے پیش نظر رب کے ساتھ بھی خاصا تعلق استوار کیا جا رہا ہے، گویا کہ رب کو منایا جا رہا ہے- دعایئں مانگیں جا رہی ہیں، عبادات میں وقت لگایا جا رہا ہے کہ کسی طرح یہ بلا، یہ آفت ٹل جائے اور ہم پھر سے نارمل زندگی کی طرف لوٹ آیئں- ادھر وہ ڈاکٹر بھی جو ہڑتالیں کرنے میں ماہر تھے، اپنی اخلاقی ذمہداری کے ایسے نشان قائم کر رہے ہیں کہ ہر طرف انھیں ملکی سرحدوں کے محافظوں سے بھی زیادہ عزت سے نوازا جا رہا ہے اور پولیس جو تقریباً ہر ملک میں کسی حد تک بدنام ہوتی  ہی ہے، وہ بھی آگے بڑھ کر لوگوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر لئے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے- 

Days in Lockdown

غالباً اس کرونا نے انسانیت کو قریب کر دیا ہے- قریب؟ کیا ہم دور تھے اور دور بھی کس سے؟ فیملی اور بیوی بچوں سے، دوستوں سے یا فلاحی کاموں سے یا پھر اپنے آپ سے؟ اچھا تو آپ رب سے دوری کی بات کر رہے ہوں گے؟ ارے دور تو ہم اب ہیں؛ کسی سے ہاتھ نہیں ملا سکتے، گلے نہیں مل سکتے، کسی دعوت پر نہیں جا سکتے، دوست نہیں آ سکتے اور بہت ساری دیگر ممنوعات ہیں-

شاید یہی ساری سوچیں اور سوالات آپ کے ذھن میں گھوم پھر رہے ہوں گے- چلیں ان باتوں پر تھوڑا غور کر لیتے ہیں- آپ کہتے ہیں کہ فیملی کیلئے ہی تو اتنی محنت کرتے ہیں تاکہ ترقی ملے اور انہیں ایک اچھا لائف سٹائل دیا جاسکے، بچے اچھے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ کر کچھ بن سکیں اور بڑھاپے کا سہارا بنیں- لیکن اس دوڑ دھوپ میں آپ کتنا وقت انکی پرورش پر لگاتے ہیں، انھیں اچھائی برائی کا فرق سمجھاتے ہیں، میل ملاپ کی تمیز دلاتے ہیں یا کبھی ان کو اپنی ثقافت اور ورثہ سے روشناس کرواتے ہیں؟

People in Lockdown
 پھر دوست احباب کا قصہ تو گول ہی سمجھوں کیونکہ آپ کے مطابق جب کام پڑتا ہے تو دوست ہی تو کام آتے ہیں- لیکن کیا دوست صرف انہی موقعوں کیلئے ہوتے ہیں یا زندگی گلزار کرنے کیلئے ہوتے ہیں؟ کیا ان کا گاہے بگاہے حال و احوال پوچھنا غلط ہے؟ کیا ان کا آپ پر کوئی حق نہیں یا صرف آپ ہی حقدار ہیں؟ رہی بات فلاحی کاموں کی تو ان کیلئے بھی ہر شخص صرف ایک تمغہ جمع کر رہا ہے کہ رہتی دنیا میں اپنا بھی کوئی نام ہوجاے؛ حشر میں میرا کوئی گواہ ہوجاے- 

اور پھر خود کیلئے بھی یقیناً آپ وقت نکال ہی لیتے ہوں گے؛ سوشل میڈیا جو ہے--- کتنے ہی ذرائع ہیں لطف اندوز ہونے کیلئے؛ Facebook, Instagram, Twitter, Pinterest اور YouTube تو کمال کی چیز ہے-  ہے نہ؟ ان کا استمعال بری بات نہیں، لیکن ان چینلز پر آپ کتنا مثبت مواد حاصل کر پاتے ہیں؟ گانے سننے، ڈرامے دیکھنے، ٹک ٹاک دیکھنے، دوسروں کی پروفائلز میں تانک جھانک کرنے اور غیر ضروری مباحثوں کے علاوہ کیا کر لیتے ہیں؟ کتنی بار آپ کچھ اچھا سیکھتے ہیں  یا کسی پر کوئی مثبت اثر ڈالتے ہیں؟ 

اور رب تو ہمیں یاد ہی کام کے وقت آتا ہے؛ جب کچھ چاہیے ہو یا کوئی مراد پوری کروانی ہو یا پھر کسی مصیبت سے نجات چاہیے ہو- جیسے ابھی اس کرونا نے ہمیں رب کے قریب کر دیا ہے کہ وہ خداے بزرگ و برتر ہمیں اس بیماری سے بچا لے- ہم قریب ہوگئے ہیں انسانیت کے؛ سب ایک دوسرے کیلئے دعاگو ہیں کہ رب اس آفت سے سب کو محفوظ رکھے- ہم قریب ہوگئے ہیں اپنے گھروں کے، کہ والدین کی خدمت میں زیادہ وقت لگا سکتے ہیں، بچوں کو اپنے تجربات سے دنیا کی سیر کرواسکتے ہیں؟

Personal Experiences
Human Life
اپنے علم سے ان کے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں، اپنے ثقافتی ورثے کی پہچان کروا سکتے ہیں- وہ احباب جن سے ناجانے کب سے بات نہیں کرپاۓ ان سے دل ہلکا کر سکتے ہیں، ان کی خیریت دریافت کر سکتے ہیں، ان کے زخموں پر باتوں اور محبت کا مرحم رکھ سکتے ہیں-

اور رہی بات اپنی تو بہت سے معملات میں اپنی خود کی اصلاح کر سکتے ہیں، کوئی اچھی کتاب پڑھ سکتے ہیں، کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں یا بہت سے ادھورے کام پورے کرسکتے ہیں- سوشل میڈیا  بھی ایک اچھی چیز ہے لیکن فائدہ اس وقت ہوگا جب ہم اس پر صرف وقت گزاری کی بجاے کچھ مثبت اور اچھا سیکھیں-

یقیناً یہ ایک لاک ڈاؤن اور مشکل گھڑی ہے، لیکن اس نے انجانے میں ہمیں قریب کردیا ہے اور ہمیں ایک موقع دیا ہے خود کو بدلنے کا، خود کو سدھارنے کا، خود کو ایک بہتر انسان بنانے کا اور اس دنیا، اس تماشہ گاہ کو ایک بہتر جگہ بنانے کا- انسان صرف کوشش کر سکتا ہے اور کوشش جاری رہنی چاہیے کیونکہ امید سحر سے ہی شمع خورشید روشن ہوتی ہے اور روشنی ہی منزل کا نشان واضح کرتی ہے- اجالا ہی اندھیرے کا سدباب کرسکتا ہے اور ہر مثبت کوشش اس اجالے کا ایندھن ہے جو نسلوں نسلوں کو دنیا و آخرت کی خوشحالی پر استوار کرتا ہے-

رب کریم ہم سب کو تمام آفات سے محفوظ رکھے اور ہمیں ایک بہتر و مثبت انسان بننے کی توفیق عطا فرماے- آمین ثم آمین



Image Courtesy:
1- Reuters
2- The Atlantic
3- Medium
4- Mama Cash
5- Ideo

Wednesday, December 28, 2016

Inteha-e-Ishq



INTEHA E ISHQ


Hoye jo Ibrahim, Ismail ki qurbani ko tayaar
Pochtay hain yeh loog keh, majra hai kia
Jawab hai Ke yeh ishq qurbani mangta hai

Bilal hoye sang-o-khasht tapti rait pe
Pochtay hain yeh loog keh, majra hai kia
Jawab hai Ke yeh ishq qurbani mangta hai

Huay Khud Jilawatan Aaqa S.A.W Apnay Shehr se
Pochtay hain yeh loog keh, majra hai kia
Jawab hai Ke yeh ishq qurbani mangta hai

Hasan-o-Hussain-o-Aal-e-Rasool bhi na bachi
Pochtay hain yeh loog keh, majra hai kia
Jawab hai Ke yeh ishq qurbani mangta hai

Kaisi Qurbani, kaisa yeh Ishq or kis keliye
Pochtay hain yeh loog keh, majra hai kia
Jawab yeh, ke hai ishq Rab-e-Aalishan se

Aur Qurban phir hn kyun na uss rab keliye
Jo harsoo harpal humain nawazta hai
nazar bs apni ik kaafir hai ke jo sawaal krti hai

Wednesday, January 13, 2016

A Wayfarer's Life

Since the inception of Humans, the cycle of life demands an end, at a certain stage of life. During that cycle of life, we go through many phases, growing gradually to our end. These phases of life have it all, what we earn through our worldly acts, leading us to sometimes, path of glory or towards satanic path.
Sometime ago, We lost our friend in a road side accident, while he was coming back from his office to home. The incident shocked all of us, as we were busy in our worldly affairs and was not expecting it, this soon. A question suddenly struck me, that how could we forget our end and the decided cycle of life. Working towards the answer, I found a fact which is our eternal fate and that is "We are living a Wayfarer's Life".

As a wayfarer we are just time traveling, covering events of life and collecting things we need to earn different badges to complete our luggage for final destination. A destination that is yet to come, but long forgotten. As a matter of fact, we are busy in things less important than those we need to fulfill at any cost. Its our responsibility to prepare for the final trip, like we pack our bags for any worldly trip.

A wayfarer doesn't pay heed to things he pass through his travel, instead he focuses only on his target destination and only pick things, he need to move further. A wayfarer's mission is to successfully complete his/her journey by fulfilling his/her goals. Are we fulfilling the Goals of Final Journey?

The answer that I found is NO, we are not. We are living this life as it will never end, forgetting the fact that Every thing which has life, has an end also. No matter, whom we belong to, which religion we follow, which place we live, how much wealthy or poor we are, we have a family or we are alone, we all have our decided eternal fate and that is "Death". Now the question is; what we are going to take with us, when we are no more of this world. All our wealth, our family, our relations, our friends, our life's achievements i.e. awards, certification, degrees & trophies, will be no more with us. The only thing that follow us there is our DEEDS.

Our close ties (Holy Faith) with God Almighty and HIS Holy Final Messenger; Prophet Muhammad (Peace & Blessings Be Upon Him), our deeds where we helped someone, where we did good with someone, where we stand for righteousness, where we strive for the betterment of society, where we refrained from bad deeds, where we give Love & Respect to our elders & juniors, where we saved someone's life, where we remained true to our responsibilities and all that will be with us in Our Eternal Home - Our Grave.

So, it is my utmost effort and initiative to remind all of us our Eternal Duties, so that we may found peace & blessings of God Almighty.

May God bless us all with Holy Faith, HIS Peace & HIS Blessings and HIS Holy Guidance, so that we may find rest in peace. Ameen Sumameen

Wednesday, November 12, 2014

Islam: Deen ya Fashion - Daur-e-Hazir ka Tajziya (اسلام: دین یا فیشن - دورِحاضر کا تجزیہ)

اسلام اور ایمان جب مِل کر کِسی کے دِل میں گھر کر لیتے ہیں تو اُس شخص کو مسلمان کہا جانے لگتا ہے- کیونکہ درحقیقت مسلمان کا مطلب ہی مسلم ایمان ہے- یہ مرکّب آج سے چودہ سو سال پہلے مکہ شریف میں اُس وقت عمل میں آیا، جب خالقِ کائنات نے اپنے پیارے حبیبِ انورومنوّر حضرت محمّدؐ کو نبوّت کے درجے پر فایئض کیا اور اسلام کی شکل میں ایک مکمل ضابطہِ حیات سے آپؐ کو نوازا-

 

اب چونکے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اِس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اِس میں ہر وہ شہ ہے جو ایک بہترین زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے- اب بہترین زندگی یا تو عِزت والی ہوسکتی ہے یا پھر عِزت کے ساتھ پیسے، دونوں کا مرکب بھی ہو سکتی ہے- اِس بات کی وضاحت کے لئے جب ہم صحابہؓ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اِس حقیقت سے بخوبی آشنا ہوجاتے ہیں کہ اِنؓ کی زندگی دونوں ہی چیزوں سے نوازی گئی تھی- ایسے اصحابؓ بھی تھے کہ جن کے پاس مال و زر کی کمی نہ تھی اور عزت میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، جیسے حضرت ابوبکر صِدیقؓ اور حضرت عثمانِ غنیؓ- اور ایسے صحابہؓ بھی تھے کہ جن کے پاس مال نہیں، تو عزت بلندوبانگ تھی، جیسے کہ حضرت بلال حبشیؓ اور حضرت زیدؓ بن حارثہ- ایسے ہی باقی تمام صحابہؓ کا بھی احوال تھا، لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا کہ اِن میں سے کوئی عِزت سے خالی ہوتا-

 

آخِر دینِ اسلام میں ایسی کونسی چیز یا فارمولا ہے کے جِس کی بدولت انسان یہ مقام و مرتبہ حاصل کرلیتا ہے- قارئینِ کرام جیسے میں نے شروعات میں عرض کیا تھا کہ مسلمان دو چیزوں کا مرکب ہے، اِسی طرح اسلام بھی دو چیزوں کا مرکب ہے؛ ایک احکامِ الہٰی اور دوسری شریعتِ محمدیہؐ- اہلِ بیت اور آلِ اہلِ بیت سب سے کامیاب لوگوں میں سے تھے کیونکہ وہ اِس اِقدار کے سب سے زیادہ قریب تھے- پھر صحابہؓ کہ جو اِس اِقدار کے نزدیک تھے اور اِسی لئے وہ بھی اِس اُمّت کے کامیاب لوگوں کے گروہ میں شاملِ حال تھے- کیونکہ اِن سب کا اُوڑھنا بِچھونا، اُٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، چلنا پِھرنا اور سب کچھ حکمِ الہٰی کے ماتحت اور شریعتِ مصطفیٰؐ کے مطابق تھا- اِن کا کلچر بھی اسلام تھا اور اِن کا فیشن بھی اسلام تھا- یہی وجہ تھی کہ صحابہؓ اپنی زندگی بھی کامیابیوں سے آراستہ کرگئے اور اپنی آخرت بھی چمکا گئے-

 

لیکن جب ہم دورِحاضر کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آج کے مسلمان نے اسلام کو اپنا فیشن بنانے کی بجاۓ، اپنے فیشن کو اسلام بنانا شروع کر دیا ہے- جِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اسلام کو ادوار کے حساب سے بدلتا دیکھ رہے ہیں- بےشک اسلام ایک عالمی دین ہے اور آنے والے تمام ادوار کے لئے مُثبت ہے، لیکن اِس کا ہرگِز یہ مطلب نہیں کہ ہم ادوار کے حوالے سے دین کو بدلنا شروع کردیں- دورِحاضر کے مسلمان کو دیکھ کر لگنے لگتا ہے کہ دین یا تو Convenience Issue بن چُکا ہے یا پھر ایک Status Symbol بن گیا ہے-


آج کل کُچھ جگہوں پر یہ دیکھا جانے لگا ہے کے دین حکمِ اِلہٰی اور شریعتِ مصطفیٰؐ کی اطاعت کی بجاۓ دوسروں پر رُعب جمانے کا ذریعہ بن چُکا ہے- یعنی دین آھستہ آھستہ دکھاوا بنتا جا رہا ہے جو کہ درحقیقت اسلام کی اَساس کا ہمارے اندر سے ختم ہو جانے کا ثبوت ہے- اسلام کی حقیقی اَساس یہ تھی کہ اللهﷻ اور اُس کے محبوب رسولؐ کی خوشنودی حاصل کی جائے- آج متعدد لوگ قربانی کرتے ہیں تو مہنگے سے مہنگا جانور صرف اِس مقصد کے لئے خریدتے ہیں کہ اِن کی امیری کی دادرسی ہو، زکوٰۃ  دیتے ہیں تو لوگوں کے کندھے ہِلاہِلا کر بتاتے ہیں کہ ہم نے اِتنی زکوٰۃ دی- صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں تو نام لےلے کر گِنواتے ہیں، حَجّ کرتے ہیں تو پیسے کی چمک کا ڈِھنڈورا پیٹتے ہیں- نماز اور ذِکروازکار کرتے ہیں تو باقی لوگوں پر رُعب جمانے کے لئے، عِلم حاصل کرتے ہیں تو اپنی اَسناد کی جےجےکار کے لئے اور نیکی کا کوئی اور بھی کام کرتے ہیں تو دریا میں ڈالنے کی بجائے شوپیس بنالیتے ہیں-

 

جبکہ سیرتِ صحابہؓ اِس تصویر کے بلکل برعکس ہے کیونکہ اُس میں ظاہری نمودونمائش کی بجائے صرف اور صرف اللهﷻ اور اُس کے پیارے رسولؐ کی اطاعت ہوا کرتی تھی- صحابہؓ کی زندگیوں کا ایک ہی مقصد ہوا کرتا تھا کہ کسی طرح اللهﷻ اور اُس کے محبوب رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرلی جائے- نماز پڑھنی ہے تو ایسے کہ جب پیٹھ مبارک میں لگا تیر بھی نکالا جائے تو پتہ نہ چلے، صدقہ وخیرات کرنی ہے تو ایسے کہ خلیفہِ وقت ہونے کے باوجود نام نہ ظاہر ہونے دیا جائے، الله و رسولؐ کے حکم کی تعمیل کرنی ہے تو ایسے کہ سارے گھر کا سامان دین کی نظر کرنے پر بھی چہرہِ انور پر ایک شِکن نہ آئے اور شرم و حیا کا ایسا خیال رکھنا کہ خود الله کے محبوبؐ بھی اُن سے پردہ فرمایا کرتے تھے- اِسی طرح رب تعالیٰ پر توَکّل کرنا ہے تو ایسے کہ جنگل کا شیر بھی سامنے آجائے تو مودبانہ انداز میں پیروں کو چوم کر چلا جائے، تجارت کرنی ہے تو ایسے کہ حرام کا ایک پیسہ بھی اس میں نہ لگے، علم و حکمت کی منازل طہ کرنی ہیں تو ایسے کہ پورے حلقے میں افضل ہونے کے باوجود عاجزی و انکساری والی زندگی گزاری جائے اور اِسی طرح کوئی اور نیکی بھی کرنی ہے تو صرف الله و رسولؐ کی خوشنودی کے لئے ہی کرنی ہے- صحابہؓ کی یہ سب محنت اور طریقت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وہ جو بھی کرتے تھے صرف اُس عمل کے حقیقی مقصد کو پورا کرنے کے لئے کرتے تھے نہ کہ اپنی ظاہری واہ واہی کے لئے کرتے تھے- اللهﷻ کا حکم بھی یہی ہے اور نبیِ کریمؐ کی سنّت بھی یہی ہے-

 

یہی وجہ ہے کہ جب ہم شخصیت کی طرف نِگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں آج کے دور میں جو شخصیت سازی نظر آتی ہے وہ اسلامی اِقدار کے بِلکُل بَرعَکس ہے- جیسے ہم اگر اب ظاہر کو بھی دیکھیں تو داڑھی کا مذاق بنایا جا رہا ہے- اِس کو ایسے انداز میں بدلا جا رہا ہے جیسے کوئی Style Statement ہوتی ہے- کوئی French رکھ لیتا ہے تو کوئی اَطالوی سٹائل کی Goatee رکھ لیتا ہے- کِسی کا بَس چلتا ہے تو لکیر نُما ڈیزائن بنا لیتا ہے تو کوئی بڑی بڑی ہیبت ناک مونچھوں کے ساتھ رکھ لیتا ہے اور کوئی Chinese سٹائل بنوا لیتا ہے- لیکن سُنّت کو کوئی بھی صحیح طریقے سے نہیں اپناتا- کیونکہ سنّت کے مطابق داڑھی کَلموں سے لے کر داڑھ کو ڈھانپتی ہوئی ٹھوڑی سے جا ملتی ہے اور مونچھیں نِسبتاً ہلکی یا داڑھی سے الگ یا بلکل صاف ہوتی ہیں- اَلبَتہ حالتِ سفر یا جنگ میں مونچھوں کے بڑھ جانے میں کوئی مُمانعت نہیں بلکہ سنّت بھی یھی ہے- اِسی طرح بالوں کا رنگنا تاکہ اپنی شخصیت کو نِکھارا جائے، جِس کے لئے آج کل مختلف اِقسام کے Color Dyes بازار میں ملتے ہیں- اب دیکھا جائے تو اِس میں کوئی بُرائی نہیں، لیکن اگر یہ سب شریعتِ مُصطفیٰؐ کے مطابق کیا جائے- جب شریعت کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ مہندی یعنی Henna ایک ایسی چیز ہے جو رسولِ کریمؐ کا سٹائل و فیشن ہوا کرتا تھا اور صحابہؓ چونکہ سب سے بہترین اُمَتی تھے، اِسی لئے اُن کا بھی یہی شیوہ ہوا کرتا تھا-

 

اِسی طرح جب ہم لباس کے بارے میں تحقیق کرتے تو پتہ چلتا ہے کہ نبیِ کریمؐ کو سادہ لباس پسند تھا اور آپؐ شوخ رنگوں سے اِجتناب فرمایا کرتے تھے- سفید، سبز، براؤن اور کالے رنگ کے کپڑے پسند فرماتے تھے- اِس کے ساتھ ہی ساتھ چمکیلے بھڑکیلے کپڑوں سے بھی اِجتناب فرماتے تھے- رنگ کے اِنتخاب کے ساتھ ساتھ کپڑے ایسے زیب تن فرماتے تھے جِس میں پورا جِسم مبارک ڈھانپا جاَۓ اور جِسم مبارک کے نقوش بھی ظاہر نہ ہو پایئں- جبکہ آج ہم اِس کا بلکل اُلَٹ کرتے ہیں اور جاذبِ نظر دِھکنے کیلئے شوخ رنگ اور بھڑکیلے کپڑوں کا اِستمعال کرتے ہیں- اپنی Fitness کا دِکھاوا کرنے کیلئے Fitting والے پَھسے ہوئے کپڑوں کا اِنتخاب کرتے ہیں کہ جو بےپردگی کا سبب بنتے ہیں- خود کو Rough n' Tough دِکھانے کیلئے اکثر لوگ پَھٹی ہوئی Jeans کا استمعال کرتے ہیں اور مردوں میں تو کچھ اِتنا حَدّ سے بڑھ جاتے ہیں کہ کانوں میں بالی، گلے میں chain یا ہاتھوں میں ڈوریاں اور کَڑے بھی پہن لیتے ہیں- اِسی طرح مستورات (عورتوں) کا حال بھی اِس سے کچھ مختلف نہیں، جو حِجاب بھی لیتی ہیں تو اِسے دین کی نظر کرنے کی بجائے فیشن کی نظر کردیتی ہیں- کوئی Camel Hump حِجاب لیتی ہے، تو کوئی Hud والا حِجاب لے لیتی ہے، کوئی چمکیلے بھڑکیلے Scarf کا انتخاب کرتی ہیں اور کچھ خواتین حِجاب ہونے کے باوجود بےحِجاب لگ رہی ہوتی ہیں- کچھ بھی ہو، اِن سبھی صورتوں کی بھینٹ چڑھنے سے حِجاب کا حقیقی مقصد فوت ہوجاتا ہے- حِجاب کا حقیقی مقصد اور مطلب پردہ ہے یعنی کسی خاص چیز کو دوسروں کی نظر سے بچانا- اب جب کوئی سادہ لباس زیب تن کرتا ہے تو اُسے اِتنے غور و فکر سے نہیں دیکھا جاتا، جیسے دوسرے طرز کے لباس والے کو دیکھا جاتا ہے اور اِس طرح شرم و حیا کی پاس داری کرنا آسان ہو جاتا ہے- اِسی لئے مرد و عورت دونوں (خصوصتاً مسلمان) کیلئے شریعتِ محمدیہؐ ہی مستحب کلچر ہے اور بہترین فیشن بھی یہی ہے-

 


مُعزَز قارئینِ کرام وقت تھوڑا اور مُدّعا بہت وسیع، لیکن چند آخری سطور میں اِس تجزیے کو پایا انجام پر پہنچاؤں گا کہ آج دین ایک دِکھاوا بنتا جا رہا ہے اور اِسی لئے ہمارے خود کے فیشن کی نظر ہو چکا ہے- جس کی وجہ سے ہم دین کی حقیقی اَساس کھو بیٹھے ہیں اور اِسی لئے دین آج صرف فیشن بن چکا ہے- ہم نماز، ذکر و ازکار اور دین کی کوئی بھی محنت کرتے ہیں تو سہی، لیکن اِس کی روح سے خالی ہیں- کیونکہ ہم اپنے روزمرہ کے مشاغل میں اِتنا کھو چکے ہیں کہ ہمیں دین کا مطالعہ کرنے کی فرصت ہی نہیں اور جب تک ہم دین میں تبلیغ و تدریس اور تحقیق کا شوق نہیں رکھیں گے، ہم اپنے دین کی حقیقی روح سے بَھٹکے رہیں گے- اِسی وجہ سے ہم الله و رسولؐ کی خوشنودی سے بھی خالی رہیں گے-

 

آئیے ہم مِل کر دین میں حقیقی محنت کا سچا عہد کریں اور اِسے حقیقی طور پر الله و رسولؐ کی خوشنودی کا ذریعہ بنایئں- دعا ہے کہ رَبُّ العالَمین ہمیں دینِ اسلام کو سہی معنوں میں سمجھ کر عمل کرنے کی ہِمّت و قوّت و توفیق و عقل و فہم عطا فرمائے- آمین ثمآمین

Monday, May 26, 2014

The Role of Media & Socio-Ethical Responsibility - Analyzing Pakistan



Media as it is commonly seen as an emerging power, now-a-days has already been entered in an environment of conflicts and allegations in Pakistan. Allegations or more clearly should I say, the charges of irresponsibility.

Though media is playing a positive role at many places, but at the same time it has many negative aspects too, due to which we are seeing a societal deterioration now-a-days. Day by day, month by month and year to year the societal norms are changing to the extent that we are forgetting our past. Some changes are good, but some of them are devastating for us and for our generations to come.

Following are some briefly described traits of media, due to which the norms & the values of our society are changing rapidly.

1)      Openness of Media:
It is what we can see as an emerging demand of today’s media i.e. freedom of speech. But, does it mean that there should be no supervisory authority or cultural boundary or some kind of media violation policy for them. Is it what it means that they are free to show everything without taking care of people’s beliefs and culture? Is it what is all about freedom of speech? If yes, then we should say “NO” to it. We should reject it and wake up the authorities in that case. Some examples are as follows:

                                                        i.            A week earlier, we all heard and some of us experienced strange incident on three of Country’s leading channels i.e. GEO, ARY and SAMAA TV. All theses channels has played a Qawwali based on Hazrat Ali (R.A) and Hazrat Fatima (R.A) nikah ceremony for three of the worldly couples, which is a disrespect to those religious deities and a heartfelt emotional & spiritual disturbance for all the Muslims living here and around the world. Now, being a citizen of Islamic Republic of Pakistan, shouldn’t they act responsibly in that matter? Shouldn’t they be aware of their socio-ethical responsibility?

                                                      ii.            Then another example is that we are seeing censorable content freely on our television screens which is very embarrassing and devastating, especially when we are sitting with our family. Like ads of condoms, hair removing creams, feminine sanitary pads and etc. Also, obscene language is being spoken in some of our TV Shows today. Like Kiran Khan (Model) said on Shaista Wahidi’s morning show “Hum larkiyan na hoti toh larkon ki pyas kaun bhujata”, Mathira (Model & Actress) spilling obscenity all around the TV. Apna Channel showing bikini shoots of Indian models. Hum TV and other channels showing dramas with too bold stories openly like “Muhabbat Jaye Bhar Main”, “Ishq Hamari Galiyon Main”, “Main Deewani”, “Bashar Momin”, “Hum Thehray Gunahgar”, “Kitni Girhain Baqi Hain”, “Shab-E-Zindagi”, “Bunty I Love You”, “Zip – Bus Chup” and a lot more. Urdu 1 and Geo Kahani showing Turkish dramas which are an open devastation for our culture. Actresses wearing too bold dresses challenging openly our culture to death. Though some of the shows on different channels are subjective and brought a good societal change like “Zindagi Gulzar Hai”, “Humsafar”, “Dhuwan (PTV)”, “Alpha, Bravo, Charlie”, “Dhoop Kinare”, “Hasb-e-Haal”, “50/50”, “Zaviya (Ashfaq Ahmad Sb)”, “Kaho Pakistan” and many others.

If this is all freedom of speech and authorities like PEMRA, Islamic Ideology Council & Government is not up to any action against them. Then we should change the name of Pakistan, tune out our channels & tune in western channels and kick out our culture to adopt westernization which is already gifted with sexual abuses, lower marital rate, old age homes hence less family life and greater lonely life.

2)      Rationality of Media:
Though media is strengthening day by day, but the rationality of its content is getting a bit questionable. Because, either it is at too much height or either it is too much shadowy, both of which makes it deviating. For example, in TV Dramas, the story sometimes shows too much negativity, like in commonly seen family conflicts; which makes it unrealistic.

Similarly, in this period of social & national turmoil, media should produce development programmes at national level to reduce this societal upheaval e.g. Master Chef, Britain Got Talent, The Apprentice, Tour Guide of Pakistan, Kasuti (Intellectual Quiz Program) and etc. Some programs are already in procession like Master Chef, but there should be more of these programs.

Instead of all this, we are having singing & dancing shows; though it is an industry with full of talent, but we are strongly in need of those professionals & intellects through whom we can bring an industrial revolution for industries far more important than the performing arts.

Then as for the News Channels, it is being irrational of them to speak only about Geo’s mistake, where as ARY & SAMAA did the same and therefore they should also be condemned with Geo. It should be noted here that Team Geo has already apologized for their Qawwali act, where as ARY & SAMAA Teams did not have shown any apology, instead they are part of those who are puking at Geo’s act, which shows a complete irrationality on their part. Also, please be mindful here that it is not about defending Geo, but to realize Media’s role in playing with our minds showing only one side of picture to make us believe it as a whole picture.

3)      Balance of Communication:
The most important thing for a socio-ethical media is its balanced communication i.e. neutrality of media, its personnel’s and obviously its content, especially for a journalist.

Despite of its affiliations, it should be able to point out wrongs & rights of a subject which is being observed by them, even if its affiliated member has some errors in it.

More precisely, what I meant here is that a TV Host or journalist should present both sides of picture without any further emphasis on any single side. For example; we have seen TV Shows on freedom of education in which TV anchors present a picture giving an idea of a deprived society; whereas there are so many educational reforms running all across Pakistan like “Teach for Pakistan”, “Danish School”, “Read Foundation”, “Agha Khan Rural Support Programme” & etc.

Another example is when TV Shows sometimes present a picture in which people of some specified area are not given their rights; like commonly shown issue of Baluchistan. Whereas they have been blessed with Sui Gas & further they are having royalty from government. Also, they have the priceless Gwadar Port & City. Then they have fish exports (Shark Fins), Makran Coastal Highway, Recodec (The Treasure Chest), Coal Power Projects, Juniper Forest of Ziarat (One of the World’s Oldest), great tourist spots and many other things.

Then another example is when on TV screens and in other media channels suppression of women is shown at height, whereas now-a-days much of the work is already done on women empowerment and for that girls are given equal rights in education, in serving the country through defense forces and civil & private service.

One more example is, when on TV screens we are seeing news of Bomb Blasts and right on the next channel there is a fashion show or some kind of fun making show killing our humanity & our socio-ethical norms. This shows how unbalanced our media is and how less socio-ethically responsible it is.

The last example is when TV Anchors probe people (politicians, analysts, actors & actresses and/or civilians) or societal issues. One such program in my memory is that where an Investigative Journalist is probing an issue of a price hike in Khairpur by pointing out some vegetables like Tomatoes & Onions. Whereas if we probe the reality, we will came to know that both of the vegetables are not grown in Khairpur and therefore they’ve been transported from other cities. This obviously adds up the transportation cost including labor, fuel & packing costs. That is why these vegetables get on a price hike and similarly this goes on with other things too. One of the main factors behind this price hike is the increasing price hike of fuel, which has not been probed by these media channels, hence resulting in an unbalanced medium of communication.

This is all I got to say this time and being a common man, the whole of this article is written in somewhat layman style. Hope the theme and context of this article will be focused more than its wording by the readers.

May we all be blessed in all ways always. Ameen Sumameen

Sunday, May 11, 2014

پیار کا اک اقتباس - On Love & Affection

تنبیہ: اس تحریر کا مقصد صرف پیار جیسی نعمت کو سمجھنا ہے اور اس کے علاوہ اس کے ذریعے سے کسی مکتب فکر کو زیر بحث لانا ہرگز مقصود نہیں.


مجھے تم سے پیار ہے۔ میں تم سے پیار کرتا / کرتی  ہوں۔ میں اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتا / سکتی۔ میری ماں، میری مٹی، میرا وطن ہے۔ میں مر مٹ جاؤں گا / گی، پر کبھی اپنوں پر آنچ تک نہیں آنے دوں گا / گی۔ یہ سب جملے انسان جس حال میں کہتا ہے، اس کو پیار، محبت یا عشق کہا جاتا ہے۔ آخر یہ پیار ہے کیا؟ اس میں ایسا ہے کیا جو انسان یہ سب کرنے پر راضی ہو جاتا ہے؟ اور پھر کیا یہ ایک کیفیت ہے یا پھر ایک احساس؟

یہ تمام سوالات وہ ہیں جو عمومی طور پر ہر کس و ناکس کے ذھن میں آ ہی جاتے ہیں۔ خیر اس کی جو بھی  صورت ہو، اس کے لیے کسی محبوب کا ہونا ضروری ہے۔ کبھی وہ محبوب والدین کی شکل میں ہوتے ہیں، تو کبھی وہ کسی دلبر کی شکل میں ہوتا ہے۔ کبھی وہ روحانی ہوتا ہے، تو کبھی وہ مجازی ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ تمام ہی ہوتے ہیں۔ یہ سب کبھی کسی کیفیت کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر انسان کے باطن سے ابھرے ایک احساس کا ماخوز ہوتا ہے۔

انسان بذات خود ایک بڑی ہی complex مخلوق ہے، کہ جس کے اندر نہ جانے کتنی ہی چیزیں ایک وقت میں پنپ رہی ہوتی ہیں۔ کچھ چیزیں تو چند ساعتوں میں ہی طہ پا جاتی ہیں اور کچھ کو ایک عرصہ بھی کم پڑتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ محبت کا بھی ہے۔ کبھی تو انسان پلک جھپکتے کسی کی تصویر دل میں بسا لیتا ہے اور کبھی تو محبوب کی تلاش میں سال ہا سال لگا دیتا ہے۔

اگر محبت کی درجہ بندی کی جاتے تو نتیجہ کچھ یوں ہو گا کہ ہر درجے کا پیار اپنے علیحدہ، خود کے رموز و اوقاف رکھتا نظر آے گا۔ جیسے دو مرکزی درجات (روحانی اور مجازی) کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں ان کی ہر چیز، یعنی محبوب سے لے کر اس کی شدت تک ہر چیز میں فرق نظر آے  گا۔ اس کے ہر انگ میں ایک انوکھا پن ہوگا، اس کی ہر ادا نرالی ہوگی اور اس کا ہر روپ مختلف ہوگا۔ اس اقتباس کے ذریے سے ہم کوشش کریں گے کہ ان دونوں درجات پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔

عشق مجازی کیا ہے، اس کا محبوب کون اور کیسا ہوتا ہے اور اس کا ہماری زندگی میں کیا مقام ہے؟ عشق مجازی سے شروعات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسس کی وسعت عشق حقیقی کی مقابلے میں کہیں زیادہ کم ہے اور اسی لیے اس کو سمجھنا کسسی قدر آسان ہے. عشق مجازی وہ ہے کہ جس میں انسان اپنے والدین، بہن یا بھائی سے یا پھر کسی رشتےدار سے یا کسی جیون ساتھی سے محبت نبھاتا ہے اور ہر ممکن کوشش کر کے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے. ہم سب کہیں نہ کہیں اپنی زندگیوں میں کسی مجازی محبوب کے متلاشی ہوتے ہیں یا پھر اسے حاصل کرچکے ہوتے ہیں. مختلف لوگوں کے مختلف احساسات ہوتے ہیں، پر والدین ایک واحد ہستی ہیں کہ جن سے ہر کوئی محبت کرتا ہے اور یہ ہماری زندگی کا پہلا اٹوٹ تعلق ہوتا ہے. ان کی خوشی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ہم ہر حد پار کرجاتے ہیں. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری زندگیاں ان سے ہیں اور ہماری خوشیاں بھی انھیں کی خوشیوں میں ہیں. یہ ہمارے لئے اپنی زندگی کی ہر خوشی کو قربان کر دیتے ہیں اور ہماری پرورش میں کوئی کمی باقی نہیں رہنے دیتے. کبھی ہمارے لئے اپنا کھانا چھوڑ دیتے ہیں تو کبھی اپنی ضروریات زندگی کو کم کر دیتے ہیں. ایسے ہی ناجانے کتنی بار وہ ہمارے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں. اور پھر اسی طرح بہن، بھائی ہیں جو ہماری اس چھوٹی سی زندگی کا ایک اہم ساتھ ہیں اور شاید دوستی کا پہلا تعلق کہ جن سے ہم ہر بات یا مسلہ share کر لیتے ہیں. پھر دیگر رشتےداروں کی بعد وہ شخصیت ہماری زندگی کا ایک اہم حصّہ بنتی ہے کہ جس کو ہم کبھی جیون ساتھی کہتے ہیں، تو کبھی ہمسفر کہتے اور کبھی شریک حیات کہ کر پکارتے ہیں. یہ سارے القاب اسی لئے اس ہستی کو دے جاتے ہیں کہ ہماری زندگی اس ایک محبوب پر آکر مکمل ہوجاتی ہے. ہماری رازدار بھی یہی ہستی اور ہمارے گھر کی ضامن بھی یہی شخصیت ہوتی ہے. اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ والدین کی اہمیت اس ہستی سے کم ہے. والدین سے تو ہمارے گھروں کی خیر و برکت برقرار ہے اور انہی کی دعاؤں سے ہماری گھر و گرہستی قائم ہے.

اسی طرح وطن کی محبت ہے کہ جس کی خاطر انسان اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے نہیں رکتا اور اپنی زندگی کے بہت سے لمحات اس کی بہتری کیلئے گزارتا ہے. کبھی کوئی فوجی اس ملت کی رکھوالی کیلئے اپنی جان پہ کھیل جاتا ہے، تو کبھی کوئی محب الوطن اپنی اس دھرتی اور اس کی کامیابی کیلئے اپنے شب و روز ایک کر دیتا ہے. اب یہ تمام عشق و محبت اس دنیا کی ہی ہے اور اس دنیا تک ہی قائم رہنے والی ہے. اور اس کی یہ تمام خیر و برکت براستہ عشق حقیقی قائم ہے. اب انسان چاہے جس مرضی مذہب فکر کا ہو، وہ کہیں نہ کہیں رب تعالیٰ سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رکھتا ہے. بھلے ہی وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، عیسائی ہو، یہودی ھو، بدھمت کا پیروکار ہو یا پھر کسسی بھی مکتب فکر کا ہو، خدا سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرورو رکھتا ہے.

خیر یہ وہ عشق ہے کہ جس میں انسان اس دنیا کہ حقیقی کا خالق و مالک اور اس کے محبوب ترین بندوں کا محب بنتا ہے یا ہوتا ہے. یہ وہ عشق ہے کہ جس سے انسان کی ساری خوشیاں حقیقی معنوں میں وابستہ ہیں اور جس کی بدولت انسان اپنی زندگی کی بہت ساری مشکلات و نقصانات سے محفوظ رہتا ہے. ایسا کیونکر ہوتا ہے یا اس کی کیا وجوہات ہوتی ہیں. تمام وجوہات ایک طرف اور رب تعالیٰ کی اپنے بندوں کیلیے محبت ایک طرف. بعض اوقات انسان کسی مشکل میں ہونے سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید رب العلمین اس سے پیار نہیں کرتے اور اس کے ساتھ کوئی ناراضگی والا معاملہ ہے، پر ایسا نہیں ہوتا. کیونکہ حقیقی طور پر وہ کسی بڑی مصیبت سے بچایا جا رہا ہوتا ہے. اکثر معاملہ ناراضگی والا بھی ہوتا، لیکن اس میں رب کائنات اپنے بندے کو نشانیاں دکھا دیتے ہیں کہ وہ اپنے اس عمل کو چھوڑ دے جس کی وجہ سے اس کی ساتھ یہ کڑی آزمائش والا حساب لیا جا رہا ہے. اس عمل میں کوئی نقصان دکھا کر یا کوئی مشکل میں ڈال کر انسان کو روکا جاتا ہے تاکہ وہ اس عمل سے پیدا ہونے والے مصائب سے بچ سکے. انسان کو وہ نقصان اس لئے نظر نہیں آتا کہ وہ حقیقی اور کبھی نہ ختم ہونے والی وسعت نہیں رکھتا، جو صرف اور صرف الله تعالیٰ کے اختیار میں ہے. جب انسان اس محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو انسان کو الله تعالیٰ کی مدد سے ہر وہ چیز نظر آنے لگتی ہے کہ جو انسان کی اپنی زندگی سنوارنے کیلیے ضروری ہے. یہی وہ انمٹ اور اٹوٹ محبت ہے جو انسان کی ساتھ ہمیشہ باقی رہتی ہے اور اسی محبت سے انسان کی مجازی محبت کو بھی تقویت ملتی ہے. رشتوں میں برکت پیدا ہوتی ہے اور تعلقات میں ہم آہنگی جنم لیتی ہے. اس محبت کو حاصل کرنے کیلئے انسان اپنی زندگی کا ایک کثیر حصہ اس کی تلاش میں لگا دیتا ہے، جبکہ اس محبت کو پانا انتہای آسان ہے. وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر بجا لاتا رہے اور ہر حال میں خدا کے بندوں کا خیال رکھے. اور اس تمام عمل کے ساتھ ساتھ خدا واحد سے کامل اور اکمل ہدایت مانگتا رہے.

دعا ہے کے رب تعالیٰ ہمیں اس عظیم جذبے، اس احساس اور اس خوبصورت نعمت کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کی اور اپنانے کی ہمّت و قوت و عقل و فہم عطا فرماے. آمین