YouGov Membership

Share Your Point of View and Help Make World a Better Place
Click Here to Be Part of the Team, Be a YouGoverner!

Wednesday, November 12, 2014

Islam: Deen ya Fashion - Daur-e-Hazir ka Tajziya (اسلام: دین یا فیشن - دورِحاضر کا تجزیہ)

اسلام اور ایمان جب مِل کر کِسی کے دِل میں گھر کر لیتے ہیں تو اُس شخص کو مسلمان کہا جانے لگتا ہے- کیونکہ درحقیقت مسلمان کا مطلب ہی مسلم ایمان ہے- یہ مرکّب آج سے چودہ سو سال پہلے مکہ شریف میں اُس وقت عمل میں آیا، جب خالقِ کائنات نے اپنے پیارے حبیبِ انورومنوّر حضرت محمّدؐ کو نبوّت کے درجے پر فایئض کیا اور اسلام کی شکل میں ایک مکمل ضابطہِ حیات سے آپؐ کو نوازا-

 

اب چونکے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اِس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اِس میں ہر وہ شہ ہے جو ایک بہترین زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے- اب بہترین زندگی یا تو عِزت والی ہوسکتی ہے یا پھر عِزت کے ساتھ پیسے، دونوں کا مرکب بھی ہو سکتی ہے- اِس بات کی وضاحت کے لئے جب ہم صحابہؓ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اِس حقیقت سے بخوبی آشنا ہوجاتے ہیں کہ اِنؓ کی زندگی دونوں ہی چیزوں سے نوازی گئی تھی- ایسے اصحابؓ بھی تھے کہ جن کے پاس مال و زر کی کمی نہ تھی اور عزت میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، جیسے حضرت ابوبکر صِدیقؓ اور حضرت عثمانِ غنیؓ- اور ایسے صحابہؓ بھی تھے کہ جن کے پاس مال نہیں، تو عزت بلندوبانگ تھی، جیسے کہ حضرت بلال حبشیؓ اور حضرت زیدؓ بن حارثہ- ایسے ہی باقی تمام صحابہؓ کا بھی احوال تھا، لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا کہ اِن میں سے کوئی عِزت سے خالی ہوتا-

 

آخِر دینِ اسلام میں ایسی کونسی چیز یا فارمولا ہے کے جِس کی بدولت انسان یہ مقام و مرتبہ حاصل کرلیتا ہے- قارئینِ کرام جیسے میں نے شروعات میں عرض کیا تھا کہ مسلمان دو چیزوں کا مرکب ہے، اِسی طرح اسلام بھی دو چیزوں کا مرکب ہے؛ ایک احکامِ الہٰی اور دوسری شریعتِ محمدیہؐ- اہلِ بیت اور آلِ اہلِ بیت سب سے کامیاب لوگوں میں سے تھے کیونکہ وہ اِس اِقدار کے سب سے زیادہ قریب تھے- پھر صحابہؓ کہ جو اِس اِقدار کے نزدیک تھے اور اِسی لئے وہ بھی اِس اُمّت کے کامیاب لوگوں کے گروہ میں شاملِ حال تھے- کیونکہ اِن سب کا اُوڑھنا بِچھونا، اُٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، چلنا پِھرنا اور سب کچھ حکمِ الہٰی کے ماتحت اور شریعتِ مصطفیٰؐ کے مطابق تھا- اِن کا کلچر بھی اسلام تھا اور اِن کا فیشن بھی اسلام تھا- یہی وجہ تھی کہ صحابہؓ اپنی زندگی بھی کامیابیوں سے آراستہ کرگئے اور اپنی آخرت بھی چمکا گئے-

 

لیکن جب ہم دورِحاضر کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آج کے مسلمان نے اسلام کو اپنا فیشن بنانے کی بجاۓ، اپنے فیشن کو اسلام بنانا شروع کر دیا ہے- جِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اسلام کو ادوار کے حساب سے بدلتا دیکھ رہے ہیں- بےشک اسلام ایک عالمی دین ہے اور آنے والے تمام ادوار کے لئے مُثبت ہے، لیکن اِس کا ہرگِز یہ مطلب نہیں کہ ہم ادوار کے حوالے سے دین کو بدلنا شروع کردیں- دورِحاضر کے مسلمان کو دیکھ کر لگنے لگتا ہے کہ دین یا تو Convenience Issue بن چُکا ہے یا پھر ایک Status Symbol بن گیا ہے-


آج کل کُچھ جگہوں پر یہ دیکھا جانے لگا ہے کے دین حکمِ اِلہٰی اور شریعتِ مصطفیٰؐ کی اطاعت کی بجاۓ دوسروں پر رُعب جمانے کا ذریعہ بن چُکا ہے- یعنی دین آھستہ آھستہ دکھاوا بنتا جا رہا ہے جو کہ درحقیقت اسلام کی اَساس کا ہمارے اندر سے ختم ہو جانے کا ثبوت ہے- اسلام کی حقیقی اَساس یہ تھی کہ اللهﷻ اور اُس کے محبوب رسولؐ کی خوشنودی حاصل کی جائے- آج متعدد لوگ قربانی کرتے ہیں تو مہنگے سے مہنگا جانور صرف اِس مقصد کے لئے خریدتے ہیں کہ اِن کی امیری کی دادرسی ہو، زکوٰۃ  دیتے ہیں تو لوگوں کے کندھے ہِلاہِلا کر بتاتے ہیں کہ ہم نے اِتنی زکوٰۃ دی- صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں تو نام لےلے کر گِنواتے ہیں، حَجّ کرتے ہیں تو پیسے کی چمک کا ڈِھنڈورا پیٹتے ہیں- نماز اور ذِکروازکار کرتے ہیں تو باقی لوگوں پر رُعب جمانے کے لئے، عِلم حاصل کرتے ہیں تو اپنی اَسناد کی جےجےکار کے لئے اور نیکی کا کوئی اور بھی کام کرتے ہیں تو دریا میں ڈالنے کی بجائے شوپیس بنالیتے ہیں-

 

جبکہ سیرتِ صحابہؓ اِس تصویر کے بلکل برعکس ہے کیونکہ اُس میں ظاہری نمودونمائش کی بجائے صرف اور صرف اللهﷻ اور اُس کے پیارے رسولؐ کی اطاعت ہوا کرتی تھی- صحابہؓ کی زندگیوں کا ایک ہی مقصد ہوا کرتا تھا کہ کسی طرح اللهﷻ اور اُس کے محبوب رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرلی جائے- نماز پڑھنی ہے تو ایسے کہ جب پیٹھ مبارک میں لگا تیر بھی نکالا جائے تو پتہ نہ چلے، صدقہ وخیرات کرنی ہے تو ایسے کہ خلیفہِ وقت ہونے کے باوجود نام نہ ظاہر ہونے دیا جائے، الله و رسولؐ کے حکم کی تعمیل کرنی ہے تو ایسے کہ سارے گھر کا سامان دین کی نظر کرنے پر بھی چہرہِ انور پر ایک شِکن نہ آئے اور شرم و حیا کا ایسا خیال رکھنا کہ خود الله کے محبوبؐ بھی اُن سے پردہ فرمایا کرتے تھے- اِسی طرح رب تعالیٰ پر توَکّل کرنا ہے تو ایسے کہ جنگل کا شیر بھی سامنے آجائے تو مودبانہ انداز میں پیروں کو چوم کر چلا جائے، تجارت کرنی ہے تو ایسے کہ حرام کا ایک پیسہ بھی اس میں نہ لگے، علم و حکمت کی منازل طہ کرنی ہیں تو ایسے کہ پورے حلقے میں افضل ہونے کے باوجود عاجزی و انکساری والی زندگی گزاری جائے اور اِسی طرح کوئی اور نیکی بھی کرنی ہے تو صرف الله و رسولؐ کی خوشنودی کے لئے ہی کرنی ہے- صحابہؓ کی یہ سب محنت اور طریقت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وہ جو بھی کرتے تھے صرف اُس عمل کے حقیقی مقصد کو پورا کرنے کے لئے کرتے تھے نہ کہ اپنی ظاہری واہ واہی کے لئے کرتے تھے- اللهﷻ کا حکم بھی یہی ہے اور نبیِ کریمؐ کی سنّت بھی یہی ہے-

 

یہی وجہ ہے کہ جب ہم شخصیت کی طرف نِگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں آج کے دور میں جو شخصیت سازی نظر آتی ہے وہ اسلامی اِقدار کے بِلکُل بَرعَکس ہے- جیسے ہم اگر اب ظاہر کو بھی دیکھیں تو داڑھی کا مذاق بنایا جا رہا ہے- اِس کو ایسے انداز میں بدلا جا رہا ہے جیسے کوئی Style Statement ہوتی ہے- کوئی French رکھ لیتا ہے تو کوئی اَطالوی سٹائل کی Goatee رکھ لیتا ہے- کِسی کا بَس چلتا ہے تو لکیر نُما ڈیزائن بنا لیتا ہے تو کوئی بڑی بڑی ہیبت ناک مونچھوں کے ساتھ رکھ لیتا ہے اور کوئی Chinese سٹائل بنوا لیتا ہے- لیکن سُنّت کو کوئی بھی صحیح طریقے سے نہیں اپناتا- کیونکہ سنّت کے مطابق داڑھی کَلموں سے لے کر داڑھ کو ڈھانپتی ہوئی ٹھوڑی سے جا ملتی ہے اور مونچھیں نِسبتاً ہلکی یا داڑھی سے الگ یا بلکل صاف ہوتی ہیں- اَلبَتہ حالتِ سفر یا جنگ میں مونچھوں کے بڑھ جانے میں کوئی مُمانعت نہیں بلکہ سنّت بھی یھی ہے- اِسی طرح بالوں کا رنگنا تاکہ اپنی شخصیت کو نِکھارا جائے، جِس کے لئے آج کل مختلف اِقسام کے Color Dyes بازار میں ملتے ہیں- اب دیکھا جائے تو اِس میں کوئی بُرائی نہیں، لیکن اگر یہ سب شریعتِ مُصطفیٰؐ کے مطابق کیا جائے- جب شریعت کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ مہندی یعنی Henna ایک ایسی چیز ہے جو رسولِ کریمؐ کا سٹائل و فیشن ہوا کرتا تھا اور صحابہؓ چونکہ سب سے بہترین اُمَتی تھے، اِسی لئے اُن کا بھی یہی شیوہ ہوا کرتا تھا-

 

اِسی طرح جب ہم لباس کے بارے میں تحقیق کرتے تو پتہ چلتا ہے کہ نبیِ کریمؐ کو سادہ لباس پسند تھا اور آپؐ شوخ رنگوں سے اِجتناب فرمایا کرتے تھے- سفید، سبز، براؤن اور کالے رنگ کے کپڑے پسند فرماتے تھے- اِس کے ساتھ ہی ساتھ چمکیلے بھڑکیلے کپڑوں سے بھی اِجتناب فرماتے تھے- رنگ کے اِنتخاب کے ساتھ ساتھ کپڑے ایسے زیب تن فرماتے تھے جِس میں پورا جِسم مبارک ڈھانپا جاَۓ اور جِسم مبارک کے نقوش بھی ظاہر نہ ہو پایئں- جبکہ آج ہم اِس کا بلکل اُلَٹ کرتے ہیں اور جاذبِ نظر دِھکنے کیلئے شوخ رنگ اور بھڑکیلے کپڑوں کا اِستمعال کرتے ہیں- اپنی Fitness کا دِکھاوا کرنے کیلئے Fitting والے پَھسے ہوئے کپڑوں کا اِنتخاب کرتے ہیں کہ جو بےپردگی کا سبب بنتے ہیں- خود کو Rough n' Tough دِکھانے کیلئے اکثر لوگ پَھٹی ہوئی Jeans کا استمعال کرتے ہیں اور مردوں میں تو کچھ اِتنا حَدّ سے بڑھ جاتے ہیں کہ کانوں میں بالی، گلے میں chain یا ہاتھوں میں ڈوریاں اور کَڑے بھی پہن لیتے ہیں- اِسی طرح مستورات (عورتوں) کا حال بھی اِس سے کچھ مختلف نہیں، جو حِجاب بھی لیتی ہیں تو اِسے دین کی نظر کرنے کی بجائے فیشن کی نظر کردیتی ہیں- کوئی Camel Hump حِجاب لیتی ہے، تو کوئی Hud والا حِجاب لے لیتی ہے، کوئی چمکیلے بھڑکیلے Scarf کا انتخاب کرتی ہیں اور کچھ خواتین حِجاب ہونے کے باوجود بےحِجاب لگ رہی ہوتی ہیں- کچھ بھی ہو، اِن سبھی صورتوں کی بھینٹ چڑھنے سے حِجاب کا حقیقی مقصد فوت ہوجاتا ہے- حِجاب کا حقیقی مقصد اور مطلب پردہ ہے یعنی کسی خاص چیز کو دوسروں کی نظر سے بچانا- اب جب کوئی سادہ لباس زیب تن کرتا ہے تو اُسے اِتنے غور و فکر سے نہیں دیکھا جاتا، جیسے دوسرے طرز کے لباس والے کو دیکھا جاتا ہے اور اِس طرح شرم و حیا کی پاس داری کرنا آسان ہو جاتا ہے- اِسی لئے مرد و عورت دونوں (خصوصتاً مسلمان) کیلئے شریعتِ محمدیہؐ ہی مستحب کلچر ہے اور بہترین فیشن بھی یہی ہے-

 


مُعزَز قارئینِ کرام وقت تھوڑا اور مُدّعا بہت وسیع، لیکن چند آخری سطور میں اِس تجزیے کو پایا انجام پر پہنچاؤں گا کہ آج دین ایک دِکھاوا بنتا جا رہا ہے اور اِسی لئے ہمارے خود کے فیشن کی نظر ہو چکا ہے- جس کی وجہ سے ہم دین کی حقیقی اَساس کھو بیٹھے ہیں اور اِسی لئے دین آج صرف فیشن بن چکا ہے- ہم نماز، ذکر و ازکار اور دین کی کوئی بھی محنت کرتے ہیں تو سہی، لیکن اِس کی روح سے خالی ہیں- کیونکہ ہم اپنے روزمرہ کے مشاغل میں اِتنا کھو چکے ہیں کہ ہمیں دین کا مطالعہ کرنے کی فرصت ہی نہیں اور جب تک ہم دین میں تبلیغ و تدریس اور تحقیق کا شوق نہیں رکھیں گے، ہم اپنے دین کی حقیقی روح سے بَھٹکے رہیں گے- اِسی وجہ سے ہم الله و رسولؐ کی خوشنودی سے بھی خالی رہیں گے-

 

آئیے ہم مِل کر دین میں حقیقی محنت کا سچا عہد کریں اور اِسے حقیقی طور پر الله و رسولؐ کی خوشنودی کا ذریعہ بنایئں- دعا ہے کہ رَبُّ العالَمین ہمیں دینِ اسلام کو سہی معنوں میں سمجھ کر عمل کرنے کی ہِمّت و قوّت و توفیق و عقل و فہم عطا فرمائے- آمین ثمآمین