YouGov Membership

Share Your Point of View and Help Make World a Better Place
Click Here to Be Part of the Team, Be a YouGoverner!

Wednesday, November 12, 2014

Islam: Deen ya Fashion - Daur-e-Hazir ka Tajziya (اسلام: دین یا فیشن - دورِحاضر کا تجزیہ)

اسلام اور ایمان جب مِل کر کِسی کے دِل میں گھر کر لیتے ہیں تو اُس شخص کو مسلمان کہا جانے لگتا ہے- کیونکہ درحقیقت مسلمان کا مطلب ہی مسلم ایمان ہے- یہ مرکّب آج سے چودہ سو سال پہلے مکہ شریف میں اُس وقت عمل میں آیا، جب خالقِ کائنات نے اپنے پیارے حبیبِ انورومنوّر حضرت محمّدؐ کو نبوّت کے درجے پر فایئض کیا اور اسلام کی شکل میں ایک مکمل ضابطہِ حیات سے آپؐ کو نوازا-

 

اب چونکے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اِس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اِس میں ہر وہ شہ ہے جو ایک بہترین زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے- اب بہترین زندگی یا تو عِزت والی ہوسکتی ہے یا پھر عِزت کے ساتھ پیسے، دونوں کا مرکب بھی ہو سکتی ہے- اِس بات کی وضاحت کے لئے جب ہم صحابہؓ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اِس حقیقت سے بخوبی آشنا ہوجاتے ہیں کہ اِنؓ کی زندگی دونوں ہی چیزوں سے نوازی گئی تھی- ایسے اصحابؓ بھی تھے کہ جن کے پاس مال و زر کی کمی نہ تھی اور عزت میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، جیسے حضرت ابوبکر صِدیقؓ اور حضرت عثمانِ غنیؓ- اور ایسے صحابہؓ بھی تھے کہ جن کے پاس مال نہیں، تو عزت بلندوبانگ تھی، جیسے کہ حضرت بلال حبشیؓ اور حضرت زیدؓ بن حارثہ- ایسے ہی باقی تمام صحابہؓ کا بھی احوال تھا، لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا کہ اِن میں سے کوئی عِزت سے خالی ہوتا-

 

آخِر دینِ اسلام میں ایسی کونسی چیز یا فارمولا ہے کے جِس کی بدولت انسان یہ مقام و مرتبہ حاصل کرلیتا ہے- قارئینِ کرام جیسے میں نے شروعات میں عرض کیا تھا کہ مسلمان دو چیزوں کا مرکب ہے، اِسی طرح اسلام بھی دو چیزوں کا مرکب ہے؛ ایک احکامِ الہٰی اور دوسری شریعتِ محمدیہؐ- اہلِ بیت اور آلِ اہلِ بیت سب سے کامیاب لوگوں میں سے تھے کیونکہ وہ اِس اِقدار کے سب سے زیادہ قریب تھے- پھر صحابہؓ کہ جو اِس اِقدار کے نزدیک تھے اور اِسی لئے وہ بھی اِس اُمّت کے کامیاب لوگوں کے گروہ میں شاملِ حال تھے- کیونکہ اِن سب کا اُوڑھنا بِچھونا، اُٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، چلنا پِھرنا اور سب کچھ حکمِ الہٰی کے ماتحت اور شریعتِ مصطفیٰؐ کے مطابق تھا- اِن کا کلچر بھی اسلام تھا اور اِن کا فیشن بھی اسلام تھا- یہی وجہ تھی کہ صحابہؓ اپنی زندگی بھی کامیابیوں سے آراستہ کرگئے اور اپنی آخرت بھی چمکا گئے-

 

لیکن جب ہم دورِحاضر کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آج کے مسلمان نے اسلام کو اپنا فیشن بنانے کی بجاۓ، اپنے فیشن کو اسلام بنانا شروع کر دیا ہے- جِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اسلام کو ادوار کے حساب سے بدلتا دیکھ رہے ہیں- بےشک اسلام ایک عالمی دین ہے اور آنے والے تمام ادوار کے لئے مُثبت ہے، لیکن اِس کا ہرگِز یہ مطلب نہیں کہ ہم ادوار کے حوالے سے دین کو بدلنا شروع کردیں- دورِحاضر کے مسلمان کو دیکھ کر لگنے لگتا ہے کہ دین یا تو Convenience Issue بن چُکا ہے یا پھر ایک Status Symbol بن گیا ہے-


آج کل کُچھ جگہوں پر یہ دیکھا جانے لگا ہے کے دین حکمِ اِلہٰی اور شریعتِ مصطفیٰؐ کی اطاعت کی بجاۓ دوسروں پر رُعب جمانے کا ذریعہ بن چُکا ہے- یعنی دین آھستہ آھستہ دکھاوا بنتا جا رہا ہے جو کہ درحقیقت اسلام کی اَساس کا ہمارے اندر سے ختم ہو جانے کا ثبوت ہے- اسلام کی حقیقی اَساس یہ تھی کہ اللهﷻ اور اُس کے محبوب رسولؐ کی خوشنودی حاصل کی جائے- آج متعدد لوگ قربانی کرتے ہیں تو مہنگے سے مہنگا جانور صرف اِس مقصد کے لئے خریدتے ہیں کہ اِن کی امیری کی دادرسی ہو، زکوٰۃ  دیتے ہیں تو لوگوں کے کندھے ہِلاہِلا کر بتاتے ہیں کہ ہم نے اِتنی زکوٰۃ دی- صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں تو نام لےلے کر گِنواتے ہیں، حَجّ کرتے ہیں تو پیسے کی چمک کا ڈِھنڈورا پیٹتے ہیں- نماز اور ذِکروازکار کرتے ہیں تو باقی لوگوں پر رُعب جمانے کے لئے، عِلم حاصل کرتے ہیں تو اپنی اَسناد کی جےجےکار کے لئے اور نیکی کا کوئی اور بھی کام کرتے ہیں تو دریا میں ڈالنے کی بجائے شوپیس بنالیتے ہیں-

 

جبکہ سیرتِ صحابہؓ اِس تصویر کے بلکل برعکس ہے کیونکہ اُس میں ظاہری نمودونمائش کی بجائے صرف اور صرف اللهﷻ اور اُس کے پیارے رسولؐ کی اطاعت ہوا کرتی تھی- صحابہؓ کی زندگیوں کا ایک ہی مقصد ہوا کرتا تھا کہ کسی طرح اللهﷻ اور اُس کے محبوب رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرلی جائے- نماز پڑھنی ہے تو ایسے کہ جب پیٹھ مبارک میں لگا تیر بھی نکالا جائے تو پتہ نہ چلے، صدقہ وخیرات کرنی ہے تو ایسے کہ خلیفہِ وقت ہونے کے باوجود نام نہ ظاہر ہونے دیا جائے، الله و رسولؐ کے حکم کی تعمیل کرنی ہے تو ایسے کہ سارے گھر کا سامان دین کی نظر کرنے پر بھی چہرہِ انور پر ایک شِکن نہ آئے اور شرم و حیا کا ایسا خیال رکھنا کہ خود الله کے محبوبؐ بھی اُن سے پردہ فرمایا کرتے تھے- اِسی طرح رب تعالیٰ پر توَکّل کرنا ہے تو ایسے کہ جنگل کا شیر بھی سامنے آجائے تو مودبانہ انداز میں پیروں کو چوم کر چلا جائے، تجارت کرنی ہے تو ایسے کہ حرام کا ایک پیسہ بھی اس میں نہ لگے، علم و حکمت کی منازل طہ کرنی ہیں تو ایسے کہ پورے حلقے میں افضل ہونے کے باوجود عاجزی و انکساری والی زندگی گزاری جائے اور اِسی طرح کوئی اور نیکی بھی کرنی ہے تو صرف الله و رسولؐ کی خوشنودی کے لئے ہی کرنی ہے- صحابہؓ کی یہ سب محنت اور طریقت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ وہ جو بھی کرتے تھے صرف اُس عمل کے حقیقی مقصد کو پورا کرنے کے لئے کرتے تھے نہ کہ اپنی ظاہری واہ واہی کے لئے کرتے تھے- اللهﷻ کا حکم بھی یہی ہے اور نبیِ کریمؐ کی سنّت بھی یہی ہے-

 

یہی وجہ ہے کہ جب ہم شخصیت کی طرف نِگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں آج کے دور میں جو شخصیت سازی نظر آتی ہے وہ اسلامی اِقدار کے بِلکُل بَرعَکس ہے- جیسے ہم اگر اب ظاہر کو بھی دیکھیں تو داڑھی کا مذاق بنایا جا رہا ہے- اِس کو ایسے انداز میں بدلا جا رہا ہے جیسے کوئی Style Statement ہوتی ہے- کوئی French رکھ لیتا ہے تو کوئی اَطالوی سٹائل کی Goatee رکھ لیتا ہے- کِسی کا بَس چلتا ہے تو لکیر نُما ڈیزائن بنا لیتا ہے تو کوئی بڑی بڑی ہیبت ناک مونچھوں کے ساتھ رکھ لیتا ہے اور کوئی Chinese سٹائل بنوا لیتا ہے- لیکن سُنّت کو کوئی بھی صحیح طریقے سے نہیں اپناتا- کیونکہ سنّت کے مطابق داڑھی کَلموں سے لے کر داڑھ کو ڈھانپتی ہوئی ٹھوڑی سے جا ملتی ہے اور مونچھیں نِسبتاً ہلکی یا داڑھی سے الگ یا بلکل صاف ہوتی ہیں- اَلبَتہ حالتِ سفر یا جنگ میں مونچھوں کے بڑھ جانے میں کوئی مُمانعت نہیں بلکہ سنّت بھی یھی ہے- اِسی طرح بالوں کا رنگنا تاکہ اپنی شخصیت کو نِکھارا جائے، جِس کے لئے آج کل مختلف اِقسام کے Color Dyes بازار میں ملتے ہیں- اب دیکھا جائے تو اِس میں کوئی بُرائی نہیں، لیکن اگر یہ سب شریعتِ مُصطفیٰؐ کے مطابق کیا جائے- جب شریعت کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ مہندی یعنی Henna ایک ایسی چیز ہے جو رسولِ کریمؐ کا سٹائل و فیشن ہوا کرتا تھا اور صحابہؓ چونکہ سب سے بہترین اُمَتی تھے، اِسی لئے اُن کا بھی یہی شیوہ ہوا کرتا تھا-

 

اِسی طرح جب ہم لباس کے بارے میں تحقیق کرتے تو پتہ چلتا ہے کہ نبیِ کریمؐ کو سادہ لباس پسند تھا اور آپؐ شوخ رنگوں سے اِجتناب فرمایا کرتے تھے- سفید، سبز، براؤن اور کالے رنگ کے کپڑے پسند فرماتے تھے- اِس کے ساتھ ہی ساتھ چمکیلے بھڑکیلے کپڑوں سے بھی اِجتناب فرماتے تھے- رنگ کے اِنتخاب کے ساتھ ساتھ کپڑے ایسے زیب تن فرماتے تھے جِس میں پورا جِسم مبارک ڈھانپا جاَۓ اور جِسم مبارک کے نقوش بھی ظاہر نہ ہو پایئں- جبکہ آج ہم اِس کا بلکل اُلَٹ کرتے ہیں اور جاذبِ نظر دِھکنے کیلئے شوخ رنگ اور بھڑکیلے کپڑوں کا اِستمعال کرتے ہیں- اپنی Fitness کا دِکھاوا کرنے کیلئے Fitting والے پَھسے ہوئے کپڑوں کا اِنتخاب کرتے ہیں کہ جو بےپردگی کا سبب بنتے ہیں- خود کو Rough n' Tough دِکھانے کیلئے اکثر لوگ پَھٹی ہوئی Jeans کا استمعال کرتے ہیں اور مردوں میں تو کچھ اِتنا حَدّ سے بڑھ جاتے ہیں کہ کانوں میں بالی، گلے میں chain یا ہاتھوں میں ڈوریاں اور کَڑے بھی پہن لیتے ہیں- اِسی طرح مستورات (عورتوں) کا حال بھی اِس سے کچھ مختلف نہیں، جو حِجاب بھی لیتی ہیں تو اِسے دین کی نظر کرنے کی بجائے فیشن کی نظر کردیتی ہیں- کوئی Camel Hump حِجاب لیتی ہے، تو کوئی Hud والا حِجاب لے لیتی ہے، کوئی چمکیلے بھڑکیلے Scarf کا انتخاب کرتی ہیں اور کچھ خواتین حِجاب ہونے کے باوجود بےحِجاب لگ رہی ہوتی ہیں- کچھ بھی ہو، اِن سبھی صورتوں کی بھینٹ چڑھنے سے حِجاب کا حقیقی مقصد فوت ہوجاتا ہے- حِجاب کا حقیقی مقصد اور مطلب پردہ ہے یعنی کسی خاص چیز کو دوسروں کی نظر سے بچانا- اب جب کوئی سادہ لباس زیب تن کرتا ہے تو اُسے اِتنے غور و فکر سے نہیں دیکھا جاتا، جیسے دوسرے طرز کے لباس والے کو دیکھا جاتا ہے اور اِس طرح شرم و حیا کی پاس داری کرنا آسان ہو جاتا ہے- اِسی لئے مرد و عورت دونوں (خصوصتاً مسلمان) کیلئے شریعتِ محمدیہؐ ہی مستحب کلچر ہے اور بہترین فیشن بھی یہی ہے-

 


مُعزَز قارئینِ کرام وقت تھوڑا اور مُدّعا بہت وسیع، لیکن چند آخری سطور میں اِس تجزیے کو پایا انجام پر پہنچاؤں گا کہ آج دین ایک دِکھاوا بنتا جا رہا ہے اور اِسی لئے ہمارے خود کے فیشن کی نظر ہو چکا ہے- جس کی وجہ سے ہم دین کی حقیقی اَساس کھو بیٹھے ہیں اور اِسی لئے دین آج صرف فیشن بن چکا ہے- ہم نماز، ذکر و ازکار اور دین کی کوئی بھی محنت کرتے ہیں تو سہی، لیکن اِس کی روح سے خالی ہیں- کیونکہ ہم اپنے روزمرہ کے مشاغل میں اِتنا کھو چکے ہیں کہ ہمیں دین کا مطالعہ کرنے کی فرصت ہی نہیں اور جب تک ہم دین میں تبلیغ و تدریس اور تحقیق کا شوق نہیں رکھیں گے، ہم اپنے دین کی حقیقی روح سے بَھٹکے رہیں گے- اِسی وجہ سے ہم الله و رسولؐ کی خوشنودی سے بھی خالی رہیں گے-

 

آئیے ہم مِل کر دین میں حقیقی محنت کا سچا عہد کریں اور اِسے حقیقی طور پر الله و رسولؐ کی خوشنودی کا ذریعہ بنایئں- دعا ہے کہ رَبُّ العالَمین ہمیں دینِ اسلام کو سہی معنوں میں سمجھ کر عمل کرنے کی ہِمّت و قوّت و توفیق و عقل و فہم عطا فرمائے- آمین ثمآمین

Monday, May 26, 2014

The Role of Media & Socio-Ethical Responsibility - Analyzing Pakistan



Media as it is commonly seen as an emerging power, now-a-days has already been entered in an environment of conflicts and allegations in Pakistan. Allegations or more clearly should I say, the charges of irresponsibility.

Though media is playing a positive role at many places, but at the same time it has many negative aspects too, due to which we are seeing a societal deterioration now-a-days. Day by day, month by month and year to year the societal norms are changing to the extent that we are forgetting our past. Some changes are good, but some of them are devastating for us and for our generations to come.

Following are some briefly described traits of media, due to which the norms & the values of our society are changing rapidly.

1)      Openness of Media:
It is what we can see as an emerging demand of today’s media i.e. freedom of speech. But, does it mean that there should be no supervisory authority or cultural boundary or some kind of media violation policy for them. Is it what it means that they are free to show everything without taking care of people’s beliefs and culture? Is it what is all about freedom of speech? If yes, then we should say “NO” to it. We should reject it and wake up the authorities in that case. Some examples are as follows:

                                                        i.            A week earlier, we all heard and some of us experienced strange incident on three of Country’s leading channels i.e. GEO, ARY and SAMAA TV. All theses channels has played a Qawwali based on Hazrat Ali (R.A) and Hazrat Fatima (R.A) nikah ceremony for three of the worldly couples, which is a disrespect to those religious deities and a heartfelt emotional & spiritual disturbance for all the Muslims living here and around the world. Now, being a citizen of Islamic Republic of Pakistan, shouldn’t they act responsibly in that matter? Shouldn’t they be aware of their socio-ethical responsibility?

                                                      ii.            Then another example is that we are seeing censorable content freely on our television screens which is very embarrassing and devastating, especially when we are sitting with our family. Like ads of condoms, hair removing creams, feminine sanitary pads and etc. Also, obscene language is being spoken in some of our TV Shows today. Like Kiran Khan (Model) said on Shaista Wahidi’s morning show “Hum larkiyan na hoti toh larkon ki pyas kaun bhujata”, Mathira (Model & Actress) spilling obscenity all around the TV. Apna Channel showing bikini shoots of Indian models. Hum TV and other channels showing dramas with too bold stories openly like “Muhabbat Jaye Bhar Main”, “Ishq Hamari Galiyon Main”, “Main Deewani”, “Bashar Momin”, “Hum Thehray Gunahgar”, “Kitni Girhain Baqi Hain”, “Shab-E-Zindagi”, “Bunty I Love You”, “Zip – Bus Chup” and a lot more. Urdu 1 and Geo Kahani showing Turkish dramas which are an open devastation for our culture. Actresses wearing too bold dresses challenging openly our culture to death. Though some of the shows on different channels are subjective and brought a good societal change like “Zindagi Gulzar Hai”, “Humsafar”, “Dhuwan (PTV)”, “Alpha, Bravo, Charlie”, “Dhoop Kinare”, “Hasb-e-Haal”, “50/50”, “Zaviya (Ashfaq Ahmad Sb)”, “Kaho Pakistan” and many others.

If this is all freedom of speech and authorities like PEMRA, Islamic Ideology Council & Government is not up to any action against them. Then we should change the name of Pakistan, tune out our channels & tune in western channels and kick out our culture to adopt westernization which is already gifted with sexual abuses, lower marital rate, old age homes hence less family life and greater lonely life.

2)      Rationality of Media:
Though media is strengthening day by day, but the rationality of its content is getting a bit questionable. Because, either it is at too much height or either it is too much shadowy, both of which makes it deviating. For example, in TV Dramas, the story sometimes shows too much negativity, like in commonly seen family conflicts; which makes it unrealistic.

Similarly, in this period of social & national turmoil, media should produce development programmes at national level to reduce this societal upheaval e.g. Master Chef, Britain Got Talent, The Apprentice, Tour Guide of Pakistan, Kasuti (Intellectual Quiz Program) and etc. Some programs are already in procession like Master Chef, but there should be more of these programs.

Instead of all this, we are having singing & dancing shows; though it is an industry with full of talent, but we are strongly in need of those professionals & intellects through whom we can bring an industrial revolution for industries far more important than the performing arts.

Then as for the News Channels, it is being irrational of them to speak only about Geo’s mistake, where as ARY & SAMAA did the same and therefore they should also be condemned with Geo. It should be noted here that Team Geo has already apologized for their Qawwali act, where as ARY & SAMAA Teams did not have shown any apology, instead they are part of those who are puking at Geo’s act, which shows a complete irrationality on their part. Also, please be mindful here that it is not about defending Geo, but to realize Media’s role in playing with our minds showing only one side of picture to make us believe it as a whole picture.

3)      Balance of Communication:
The most important thing for a socio-ethical media is its balanced communication i.e. neutrality of media, its personnel’s and obviously its content, especially for a journalist.

Despite of its affiliations, it should be able to point out wrongs & rights of a subject which is being observed by them, even if its affiliated member has some errors in it.

More precisely, what I meant here is that a TV Host or journalist should present both sides of picture without any further emphasis on any single side. For example; we have seen TV Shows on freedom of education in which TV anchors present a picture giving an idea of a deprived society; whereas there are so many educational reforms running all across Pakistan like “Teach for Pakistan”, “Danish School”, “Read Foundation”, “Agha Khan Rural Support Programme” & etc.

Another example is when TV Shows sometimes present a picture in which people of some specified area are not given their rights; like commonly shown issue of Baluchistan. Whereas they have been blessed with Sui Gas & further they are having royalty from government. Also, they have the priceless Gwadar Port & City. Then they have fish exports (Shark Fins), Makran Coastal Highway, Recodec (The Treasure Chest), Coal Power Projects, Juniper Forest of Ziarat (One of the World’s Oldest), great tourist spots and many other things.

Then another example is when on TV screens and in other media channels suppression of women is shown at height, whereas now-a-days much of the work is already done on women empowerment and for that girls are given equal rights in education, in serving the country through defense forces and civil & private service.

One more example is, when on TV screens we are seeing news of Bomb Blasts and right on the next channel there is a fashion show or some kind of fun making show killing our humanity & our socio-ethical norms. This shows how unbalanced our media is and how less socio-ethically responsible it is.

The last example is when TV Anchors probe people (politicians, analysts, actors & actresses and/or civilians) or societal issues. One such program in my memory is that where an Investigative Journalist is probing an issue of a price hike in Khairpur by pointing out some vegetables like Tomatoes & Onions. Whereas if we probe the reality, we will came to know that both of the vegetables are not grown in Khairpur and therefore they’ve been transported from other cities. This obviously adds up the transportation cost including labor, fuel & packing costs. That is why these vegetables get on a price hike and similarly this goes on with other things too. One of the main factors behind this price hike is the increasing price hike of fuel, which has not been probed by these media channels, hence resulting in an unbalanced medium of communication.

This is all I got to say this time and being a common man, the whole of this article is written in somewhat layman style. Hope the theme and context of this article will be focused more than its wording by the readers.

May we all be blessed in all ways always. Ameen Sumameen

Sunday, May 11, 2014

پیار کا اک اقتباس - On Love & Affection

تنبیہ: اس تحریر کا مقصد صرف پیار جیسی نعمت کو سمجھنا ہے اور اس کے علاوہ اس کے ذریعے سے کسی مکتب فکر کو زیر بحث لانا ہرگز مقصود نہیں.


مجھے تم سے پیار ہے۔ میں تم سے پیار کرتا / کرتی  ہوں۔ میں اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتا / سکتی۔ میری ماں، میری مٹی، میرا وطن ہے۔ میں مر مٹ جاؤں گا / گی، پر کبھی اپنوں پر آنچ تک نہیں آنے دوں گا / گی۔ یہ سب جملے انسان جس حال میں کہتا ہے، اس کو پیار، محبت یا عشق کہا جاتا ہے۔ آخر یہ پیار ہے کیا؟ اس میں ایسا ہے کیا جو انسان یہ سب کرنے پر راضی ہو جاتا ہے؟ اور پھر کیا یہ ایک کیفیت ہے یا پھر ایک احساس؟

یہ تمام سوالات وہ ہیں جو عمومی طور پر ہر کس و ناکس کے ذھن میں آ ہی جاتے ہیں۔ خیر اس کی جو بھی  صورت ہو، اس کے لیے کسی محبوب کا ہونا ضروری ہے۔ کبھی وہ محبوب والدین کی شکل میں ہوتے ہیں، تو کبھی وہ کسی دلبر کی شکل میں ہوتا ہے۔ کبھی وہ روحانی ہوتا ہے، تو کبھی وہ مجازی ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ تمام ہی ہوتے ہیں۔ یہ سب کبھی کسی کیفیت کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر انسان کے باطن سے ابھرے ایک احساس کا ماخوز ہوتا ہے۔

انسان بذات خود ایک بڑی ہی complex مخلوق ہے، کہ جس کے اندر نہ جانے کتنی ہی چیزیں ایک وقت میں پنپ رہی ہوتی ہیں۔ کچھ چیزیں تو چند ساعتوں میں ہی طہ پا جاتی ہیں اور کچھ کو ایک عرصہ بھی کم پڑتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ محبت کا بھی ہے۔ کبھی تو انسان پلک جھپکتے کسی کی تصویر دل میں بسا لیتا ہے اور کبھی تو محبوب کی تلاش میں سال ہا سال لگا دیتا ہے۔

اگر محبت کی درجہ بندی کی جاتے تو نتیجہ کچھ یوں ہو گا کہ ہر درجے کا پیار اپنے علیحدہ، خود کے رموز و اوقاف رکھتا نظر آے گا۔ جیسے دو مرکزی درجات (روحانی اور مجازی) کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں ان کی ہر چیز، یعنی محبوب سے لے کر اس کی شدت تک ہر چیز میں فرق نظر آے  گا۔ اس کے ہر انگ میں ایک انوکھا پن ہوگا، اس کی ہر ادا نرالی ہوگی اور اس کا ہر روپ مختلف ہوگا۔ اس اقتباس کے ذریے سے ہم کوشش کریں گے کہ ان دونوں درجات پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔

عشق مجازی کیا ہے، اس کا محبوب کون اور کیسا ہوتا ہے اور اس کا ہماری زندگی میں کیا مقام ہے؟ عشق مجازی سے شروعات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسس کی وسعت عشق حقیقی کی مقابلے میں کہیں زیادہ کم ہے اور اسی لیے اس کو سمجھنا کسسی قدر آسان ہے. عشق مجازی وہ ہے کہ جس میں انسان اپنے والدین، بہن یا بھائی سے یا پھر کسی رشتےدار سے یا کسی جیون ساتھی سے محبت نبھاتا ہے اور ہر ممکن کوشش کر کے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے. ہم سب کہیں نہ کہیں اپنی زندگیوں میں کسی مجازی محبوب کے متلاشی ہوتے ہیں یا پھر اسے حاصل کرچکے ہوتے ہیں. مختلف لوگوں کے مختلف احساسات ہوتے ہیں، پر والدین ایک واحد ہستی ہیں کہ جن سے ہر کوئی محبت کرتا ہے اور یہ ہماری زندگی کا پہلا اٹوٹ تعلق ہوتا ہے. ان کی خوشی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ہم ہر حد پار کرجاتے ہیں. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری زندگیاں ان سے ہیں اور ہماری خوشیاں بھی انھیں کی خوشیوں میں ہیں. یہ ہمارے لئے اپنی زندگی کی ہر خوشی کو قربان کر دیتے ہیں اور ہماری پرورش میں کوئی کمی باقی نہیں رہنے دیتے. کبھی ہمارے لئے اپنا کھانا چھوڑ دیتے ہیں تو کبھی اپنی ضروریات زندگی کو کم کر دیتے ہیں. ایسے ہی ناجانے کتنی بار وہ ہمارے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں. اور پھر اسی طرح بہن، بھائی ہیں جو ہماری اس چھوٹی سی زندگی کا ایک اہم ساتھ ہیں اور شاید دوستی کا پہلا تعلق کہ جن سے ہم ہر بات یا مسلہ share کر لیتے ہیں. پھر دیگر رشتےداروں کی بعد وہ شخصیت ہماری زندگی کا ایک اہم حصّہ بنتی ہے کہ جس کو ہم کبھی جیون ساتھی کہتے ہیں، تو کبھی ہمسفر کہتے اور کبھی شریک حیات کہ کر پکارتے ہیں. یہ سارے القاب اسی لئے اس ہستی کو دے جاتے ہیں کہ ہماری زندگی اس ایک محبوب پر آکر مکمل ہوجاتی ہے. ہماری رازدار بھی یہی ہستی اور ہمارے گھر کی ضامن بھی یہی شخصیت ہوتی ہے. اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ والدین کی اہمیت اس ہستی سے کم ہے. والدین سے تو ہمارے گھروں کی خیر و برکت برقرار ہے اور انہی کی دعاؤں سے ہماری گھر و گرہستی قائم ہے.

اسی طرح وطن کی محبت ہے کہ جس کی خاطر انسان اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے نہیں رکتا اور اپنی زندگی کے بہت سے لمحات اس کی بہتری کیلئے گزارتا ہے. کبھی کوئی فوجی اس ملت کی رکھوالی کیلئے اپنی جان پہ کھیل جاتا ہے، تو کبھی کوئی محب الوطن اپنی اس دھرتی اور اس کی کامیابی کیلئے اپنے شب و روز ایک کر دیتا ہے. اب یہ تمام عشق و محبت اس دنیا کی ہی ہے اور اس دنیا تک ہی قائم رہنے والی ہے. اور اس کی یہ تمام خیر و برکت براستہ عشق حقیقی قائم ہے. اب انسان چاہے جس مرضی مذہب فکر کا ہو، وہ کہیں نہ کہیں رب تعالیٰ سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رکھتا ہے. بھلے ہی وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، عیسائی ہو، یہودی ھو، بدھمت کا پیروکار ہو یا پھر کسسی بھی مکتب فکر کا ہو، خدا سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرورو رکھتا ہے.

خیر یہ وہ عشق ہے کہ جس میں انسان اس دنیا کہ حقیقی کا خالق و مالک اور اس کے محبوب ترین بندوں کا محب بنتا ہے یا ہوتا ہے. یہ وہ عشق ہے کہ جس سے انسان کی ساری خوشیاں حقیقی معنوں میں وابستہ ہیں اور جس کی بدولت انسان اپنی زندگی کی بہت ساری مشکلات و نقصانات سے محفوظ رہتا ہے. ایسا کیونکر ہوتا ہے یا اس کی کیا وجوہات ہوتی ہیں. تمام وجوہات ایک طرف اور رب تعالیٰ کی اپنے بندوں کیلیے محبت ایک طرف. بعض اوقات انسان کسی مشکل میں ہونے سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید رب العلمین اس سے پیار نہیں کرتے اور اس کے ساتھ کوئی ناراضگی والا معاملہ ہے، پر ایسا نہیں ہوتا. کیونکہ حقیقی طور پر وہ کسی بڑی مصیبت سے بچایا جا رہا ہوتا ہے. اکثر معاملہ ناراضگی والا بھی ہوتا، لیکن اس میں رب کائنات اپنے بندے کو نشانیاں دکھا دیتے ہیں کہ وہ اپنے اس عمل کو چھوڑ دے جس کی وجہ سے اس کی ساتھ یہ کڑی آزمائش والا حساب لیا جا رہا ہے. اس عمل میں کوئی نقصان دکھا کر یا کوئی مشکل میں ڈال کر انسان کو روکا جاتا ہے تاکہ وہ اس عمل سے پیدا ہونے والے مصائب سے بچ سکے. انسان کو وہ نقصان اس لئے نظر نہیں آتا کہ وہ حقیقی اور کبھی نہ ختم ہونے والی وسعت نہیں رکھتا، جو صرف اور صرف الله تعالیٰ کے اختیار میں ہے. جب انسان اس محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو انسان کو الله تعالیٰ کی مدد سے ہر وہ چیز نظر آنے لگتی ہے کہ جو انسان کی اپنی زندگی سنوارنے کیلیے ضروری ہے. یہی وہ انمٹ اور اٹوٹ محبت ہے جو انسان کی ساتھ ہمیشہ باقی رہتی ہے اور اسی محبت سے انسان کی مجازی محبت کو بھی تقویت ملتی ہے. رشتوں میں برکت پیدا ہوتی ہے اور تعلقات میں ہم آہنگی جنم لیتی ہے. اس محبت کو حاصل کرنے کیلئے انسان اپنی زندگی کا ایک کثیر حصہ اس کی تلاش میں لگا دیتا ہے، جبکہ اس محبت کو پانا انتہای آسان ہے. وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر بجا لاتا رہے اور ہر حال میں خدا کے بندوں کا خیال رکھے. اور اس تمام عمل کے ساتھ ساتھ خدا واحد سے کامل اور اکمل ہدایت مانگتا رہے.

دعا ہے کے رب تعالیٰ ہمیں اس عظیم جذبے، اس احساس اور اس خوبصورت نعمت کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کی اور اپنانے کی ہمّت و قوت و عقل و فہم عطا فرماے. آمین

Tuesday, January 28, 2014

Improvising Pakistan - A Call for United Rehabilitation Effort (Part 02)

In the first part of this article, I have tried to let my dear Pakistanis know the historic unity of Pakistan. I know there are some separatists movements being in action before the inception of Pakistan and sadly they are right now residing in this Islamic Republic of Pakistan. But, right now I'm not here to discuss those ignorant instead, I'm opting myself as a somewhat responsible Pakistani Patriot to provide my people and statesmen with suggestions to improve the conditions of My Dear Motherland Pakistan.

PUNJAB:
An agriculturally gifted land with lots of crops that are circulated around the country to provide other Pakistani Brothers and Sisters with food and grain. Also, it is the largest industrial hub of Pakistan containing many Small, Medium and Large companies in various fields. Also, being a heritage land it generates a handsome tourism revenue.

SINDH:
A culturally rich land with a remarkable extent of seafood capacity, being connected with the only sea route in the region "The Arabian Sea". Also, there are industrial hubs of different descents  supporting the regions economy.

PAKHTUNKHWA:
A land that needs no introduction to its people's valor and rich culture. Its beautiful plateaus, scenic mountain views and northern valleys are the largest tourist attractions of the country. Also, dry fruit is the main commodity being produced in this land. The regions trade routes are the most famous and most historical.

BALUCHISTAN:
A land gifted with largest mineral resources of the country. Also, there are many scenic tourist attractions unexplored in the area with an opportunistic natural seaport under consideration.

AZAD-KASHMIR:
Another picturesque landscape offering tourism & rich food culture to the people of the land and foreign tourist expeditions.

All of this that has been elaborated above is to let my people know what gifts we have incurred from God - Almighty. Now, comes the point that how can we start a Unified Rehabilitation Effort for the improvisation of Dear Motherland Pakistan. From the above detailed scenario we can get the following areas which can help us all in reconditioning the State of Pakistan for prosperous future.
  1. Sharing the Agricultural Progress by implementing green housing techniques to soil the seeds of one province in all other provinces
  2. Conversion of Historical Buildings in Hotels and Restaurants
  3. Promoting Greater Tourism in all regions by providing greater opportunities for facilitators (Tuck Shops, Equipment Stores, Antique Shops and Souvenirs' Shops)
  4. Exploring New Tourist Locations
  5. Deciding the Royalties for Tourist Sites which are part of some Leader of a Clan's property, like in Baluchistan and KPK
  6. Exploration of Mineral Resources
  7. Encouraging local investors more than foreign investors in all business sectors by allowing them subsidies and rebates
  8. Establishing Equal quota of Government Jobs for all provinces by ending the discriminatory division of it on population basis
  9. Building more academic centers and institutions with multilingual support
  10. Reinforcing new industrial hubs all across Pakistan on equal terms and opportunities
  11. Upbringing & reinforcing skills and capabilities of people from every caste & creed in rehabilitation effort for the socioeconomic progress of Pakistan
  12. Forming centers for the Confidence Building Measures across the country
The list of things to do is huge, but to me the foremost duties are listed above on the part of Governments. I hope the government officials will look into this post and at-least consider it as a generous effort for unified rehabilitation. Being an Individual and citizen of Pakistan, we should also come forward to employ our skills & capabilities to make Our Dear Motherland Prosper. We should also end our prejudiced thoughts and show respect to others. That is all what I can say right now and hope my people along with the statesmen will surely not just listen to it, but also do so.

Improvising Pakistan - A Call for United Rehabilitation Effort (Part 01)

Its hard to start, but still I have to begin with the very needed point of view for the Great United Rehabilitation Effort for our very own Dear Motherland Pakistan. Today, we are in a state of economic discomfort, social discrimination, cultural turmoil and a severe lack of unified national growth. Its obvious that a normal person or a reader would put all this on the shoulders of the politicians of the state. Yes, they are responsible for all this fuss which is being created, but are we forgetting ourselves. Aren't we responsible for this inequality or what I should say more appropriately prejudice.

Lets for a moment forget our politicians & bureaucrats and analyze ourselves. In our daily lives we always try to score our own points on the basis of caste and creed. For example, a Punjabi always try to project that everything is on Punjab's shoulders by providing food grain, utility bills (at the most) and production of various necessities to the other provinces. A Pashtun always try to elaborate his' ethnic nation's bravery and hardworking capability to score his' ethnic orientation's score. A Sindhi always try to score his' points by elaborating his' land's cultural and historical values. A Baloch always try to speak out for inappropriate treatment they have  from government of Pakistan and other nations surviving in this country also do so like these major ethnic origins.

Why can't we understand that all of us are first and fore mostly Pakistanis, despite of whatever ethnicity we are currently holding. Why can't we think of origins other than us in this state of Pakistan.
  • Is it that Being a Punjabi is better or bigger than Being a Pakistani? 
  • Is it that Being a Pashtun is better or bigger than Being a Pakistani?
  • Is it that Being a Sindhi is better or bigger than Being a Pakistani? 
  • Is it that Being a Baloch is better or bigger than Being a Pakistani?
  • Is it that Being a Kashmiri is better or bigger than Being a Pakistani? 
  • Is it that Being a Hazarvi is better or bigger than Being a Pakistani?
  • Is it that Being an Urdu Speaking is better or bigger than Being a Pakistani?
  • Is it that Being an Bengali is better or bigger than Being a Pakistani?
  • Is it that Being a Baruhi is better or bigger than Being a Pakistani?
  • Is it that Being a Gilgit-Baltisitani is better or bigger than Being a Pakistani?
The answer to these questions should be "NO" for every Pakistani, no matter what ethnic origin he/she belongs to. In every situation we should think on a whole for all Pakistanis. We should fight for the rights of Nation as a whole, not on the basis of ethnicity. We should end this prejudiced thought living in us.

Day by Day we are getting close minded by thinking only for us. Aren't we forgetting something told to us by our elders i.e. Unity is Strength. Did we just forget the great "Independence Movement" for the creation of Dear Motherland Pakistan. A movement which has people from every caste & creed. The leader of the movement was an Urdu Speaking (Qauid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah), The great thinker of the movement was a Punjabi (Dr. Allama Muhammad Iqbal), another notable leader was a Punjabi (Ch. Rehmat Ali), another notable leader was a Bengali (Khawaja Nazimudin), another notable leader was a Bengali (Hussain Shaheed Suharwardy), another notable leader was a Pashtun (Sardar Abdur Rab Nishter), another notable leader was a Pashtun (Khan Bakht Jamal Khan), another notable leader was from Balochistan (Qazi Muhammad Essa), another notable leader was from Balochistan (Shahzada Rehmatullah Khan Saddozai), another notable leader was from Sindh (Jan Muhammad Junejo), another notable leader was from Sindh (Abdullah Haroon), another notable leader was an Urdu Speaking (Nawab Viqar-ul-Mulk), another notable leader was from Hazarvi Origin (Jalal-ud-din Jalal Baba) and many others from different ethnic origins of our Dear Motherland Pakistan.

Also, on religious grounds the movement has people like "Jogendra Nath Mandal" a Hindu,
"Sir Victor Turner" & "Alvin Robert Cornelius" were Christians
, "Syed Mir Hassan - Shams ul Ulema" & "Syed Shamsul Hassan" were Sayyids, "Pir Jamaat Ali Shah Sb" a Sunni, "Raja Sahab Mahmood Abadi" a Shia, "Sir Aga Khan 3" an Ismaili, "Maulana Ashraf Ali Thanvi" a Deobandi and "Ghulam Ahmed Pervez" a Barelvi too participated in the Independence Movement of Pakistan.

All this which I had described above, clearly states that Pakistan is a state developed with a mutual consent & efforts of all ethnic & religious groups. Now, seeing the conditions of present day Pakistan, a question in mind arises that why are we facing this clash of cultures & origins. Aren't there any brotherhood calls or aren't there any unified progression efforts? Yes, there are calls for Unified Growth Policies & Movements, but sadly we don't take part in them to keep our prejudiced thoughts for our personal gains. Today, our personal gains are more important than what is in best interest of our Dear Motherland Pakistan.

Should there be a National Policy for Rehabilitation of Unified Economic Growth or should there be an effort on individual basis. The answer to this would most probably be the responsibility on both sides. But, what should comes first in implementation? And this is something on the part of Governments. (To Be Continued....)