YouGov Membership

Share Your Point of View and Help Make World a Better Place
Click Here to Be Part of the Team, Be a YouGoverner!

Sunday, May 11, 2014

پیار کا اک اقتباس - On Love & Affection

تنبیہ: اس تحریر کا مقصد صرف پیار جیسی نعمت کو سمجھنا ہے اور اس کے علاوہ اس کے ذریعے سے کسی مکتب فکر کو زیر بحث لانا ہرگز مقصود نہیں.


مجھے تم سے پیار ہے۔ میں تم سے پیار کرتا / کرتی  ہوں۔ میں اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتا / سکتی۔ میری ماں، میری مٹی، میرا وطن ہے۔ میں مر مٹ جاؤں گا / گی، پر کبھی اپنوں پر آنچ تک نہیں آنے دوں گا / گی۔ یہ سب جملے انسان جس حال میں کہتا ہے، اس کو پیار، محبت یا عشق کہا جاتا ہے۔ آخر یہ پیار ہے کیا؟ اس میں ایسا ہے کیا جو انسان یہ سب کرنے پر راضی ہو جاتا ہے؟ اور پھر کیا یہ ایک کیفیت ہے یا پھر ایک احساس؟

یہ تمام سوالات وہ ہیں جو عمومی طور پر ہر کس و ناکس کے ذھن میں آ ہی جاتے ہیں۔ خیر اس کی جو بھی  صورت ہو، اس کے لیے کسی محبوب کا ہونا ضروری ہے۔ کبھی وہ محبوب والدین کی شکل میں ہوتے ہیں، تو کبھی وہ کسی دلبر کی شکل میں ہوتا ہے۔ کبھی وہ روحانی ہوتا ہے، تو کبھی وہ مجازی ہوتا ہے۔ اور کبھی یہ تمام ہی ہوتے ہیں۔ یہ سب کبھی کسی کیفیت کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر انسان کے باطن سے ابھرے ایک احساس کا ماخوز ہوتا ہے۔

انسان بذات خود ایک بڑی ہی complex مخلوق ہے، کہ جس کے اندر نہ جانے کتنی ہی چیزیں ایک وقت میں پنپ رہی ہوتی ہیں۔ کچھ چیزیں تو چند ساعتوں میں ہی طہ پا جاتی ہیں اور کچھ کو ایک عرصہ بھی کم پڑتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ محبت کا بھی ہے۔ کبھی تو انسان پلک جھپکتے کسی کی تصویر دل میں بسا لیتا ہے اور کبھی تو محبوب کی تلاش میں سال ہا سال لگا دیتا ہے۔

اگر محبت کی درجہ بندی کی جاتے تو نتیجہ کچھ یوں ہو گا کہ ہر درجے کا پیار اپنے علیحدہ، خود کے رموز و اوقاف رکھتا نظر آے گا۔ جیسے دو مرکزی درجات (روحانی اور مجازی) کو اگر دیکھا جائے تو ہمیں ان کی ہر چیز، یعنی محبوب سے لے کر اس کی شدت تک ہر چیز میں فرق نظر آے  گا۔ اس کے ہر انگ میں ایک انوکھا پن ہوگا، اس کی ہر ادا نرالی ہوگی اور اس کا ہر روپ مختلف ہوگا۔ اس اقتباس کے ذریے سے ہم کوشش کریں گے کہ ان دونوں درجات پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔

عشق مجازی کیا ہے، اس کا محبوب کون اور کیسا ہوتا ہے اور اس کا ہماری زندگی میں کیا مقام ہے؟ عشق مجازی سے شروعات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسس کی وسعت عشق حقیقی کی مقابلے میں کہیں زیادہ کم ہے اور اسی لیے اس کو سمجھنا کسسی قدر آسان ہے. عشق مجازی وہ ہے کہ جس میں انسان اپنے والدین، بہن یا بھائی سے یا پھر کسی رشتےدار سے یا کسی جیون ساتھی سے محبت نبھاتا ہے اور ہر ممکن کوشش کر کے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے. ہم سب کہیں نہ کہیں اپنی زندگیوں میں کسی مجازی محبوب کے متلاشی ہوتے ہیں یا پھر اسے حاصل کرچکے ہوتے ہیں. مختلف لوگوں کے مختلف احساسات ہوتے ہیں، پر والدین ایک واحد ہستی ہیں کہ جن سے ہر کوئی محبت کرتا ہے اور یہ ہماری زندگی کا پہلا اٹوٹ تعلق ہوتا ہے. ان کی خوشی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ہم ہر حد پار کرجاتے ہیں. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری زندگیاں ان سے ہیں اور ہماری خوشیاں بھی انھیں کی خوشیوں میں ہیں. یہ ہمارے لئے اپنی زندگی کی ہر خوشی کو قربان کر دیتے ہیں اور ہماری پرورش میں کوئی کمی باقی نہیں رہنے دیتے. کبھی ہمارے لئے اپنا کھانا چھوڑ دیتے ہیں تو کبھی اپنی ضروریات زندگی کو کم کر دیتے ہیں. ایسے ہی ناجانے کتنی بار وہ ہمارے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں. اور پھر اسی طرح بہن، بھائی ہیں جو ہماری اس چھوٹی سی زندگی کا ایک اہم ساتھ ہیں اور شاید دوستی کا پہلا تعلق کہ جن سے ہم ہر بات یا مسلہ share کر لیتے ہیں. پھر دیگر رشتےداروں کی بعد وہ شخصیت ہماری زندگی کا ایک اہم حصّہ بنتی ہے کہ جس کو ہم کبھی جیون ساتھی کہتے ہیں، تو کبھی ہمسفر کہتے اور کبھی شریک حیات کہ کر پکارتے ہیں. یہ سارے القاب اسی لئے اس ہستی کو دے جاتے ہیں کہ ہماری زندگی اس ایک محبوب پر آکر مکمل ہوجاتی ہے. ہماری رازدار بھی یہی ہستی اور ہمارے گھر کی ضامن بھی یہی شخصیت ہوتی ہے. اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ والدین کی اہمیت اس ہستی سے کم ہے. والدین سے تو ہمارے گھروں کی خیر و برکت برقرار ہے اور انہی کی دعاؤں سے ہماری گھر و گرہستی قائم ہے.

اسی طرح وطن کی محبت ہے کہ جس کی خاطر انسان اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے نہیں رکتا اور اپنی زندگی کے بہت سے لمحات اس کی بہتری کیلئے گزارتا ہے. کبھی کوئی فوجی اس ملت کی رکھوالی کیلئے اپنی جان پہ کھیل جاتا ہے، تو کبھی کوئی محب الوطن اپنی اس دھرتی اور اس کی کامیابی کیلئے اپنے شب و روز ایک کر دیتا ہے. اب یہ تمام عشق و محبت اس دنیا کی ہی ہے اور اس دنیا تک ہی قائم رہنے والی ہے. اور اس کی یہ تمام خیر و برکت براستہ عشق حقیقی قائم ہے. اب انسان چاہے جس مرضی مذہب فکر کا ہو، وہ کہیں نہ کہیں رب تعالیٰ سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رکھتا ہے. بھلے ہی وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، عیسائی ہو، یہودی ھو، بدھمت کا پیروکار ہو یا پھر کسسی بھی مکتب فکر کا ہو، خدا سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرورو رکھتا ہے.

خیر یہ وہ عشق ہے کہ جس میں انسان اس دنیا کہ حقیقی کا خالق و مالک اور اس کے محبوب ترین بندوں کا محب بنتا ہے یا ہوتا ہے. یہ وہ عشق ہے کہ جس سے انسان کی ساری خوشیاں حقیقی معنوں میں وابستہ ہیں اور جس کی بدولت انسان اپنی زندگی کی بہت ساری مشکلات و نقصانات سے محفوظ رہتا ہے. ایسا کیونکر ہوتا ہے یا اس کی کیا وجوہات ہوتی ہیں. تمام وجوہات ایک طرف اور رب تعالیٰ کی اپنے بندوں کیلیے محبت ایک طرف. بعض اوقات انسان کسی مشکل میں ہونے سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید رب العلمین اس سے پیار نہیں کرتے اور اس کے ساتھ کوئی ناراضگی والا معاملہ ہے، پر ایسا نہیں ہوتا. کیونکہ حقیقی طور پر وہ کسی بڑی مصیبت سے بچایا جا رہا ہوتا ہے. اکثر معاملہ ناراضگی والا بھی ہوتا، لیکن اس میں رب کائنات اپنے بندے کو نشانیاں دکھا دیتے ہیں کہ وہ اپنے اس عمل کو چھوڑ دے جس کی وجہ سے اس کی ساتھ یہ کڑی آزمائش والا حساب لیا جا رہا ہے. اس عمل میں کوئی نقصان دکھا کر یا کوئی مشکل میں ڈال کر انسان کو روکا جاتا ہے تاکہ وہ اس عمل سے پیدا ہونے والے مصائب سے بچ سکے. انسان کو وہ نقصان اس لئے نظر نہیں آتا کہ وہ حقیقی اور کبھی نہ ختم ہونے والی وسعت نہیں رکھتا، جو صرف اور صرف الله تعالیٰ کے اختیار میں ہے. جب انسان اس محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو انسان کو الله تعالیٰ کی مدد سے ہر وہ چیز نظر آنے لگتی ہے کہ جو انسان کی اپنی زندگی سنوارنے کیلیے ضروری ہے. یہی وہ انمٹ اور اٹوٹ محبت ہے جو انسان کی ساتھ ہمیشہ باقی رہتی ہے اور اسی محبت سے انسان کی مجازی محبت کو بھی تقویت ملتی ہے. رشتوں میں برکت پیدا ہوتی ہے اور تعلقات میں ہم آہنگی جنم لیتی ہے. اس محبت کو حاصل کرنے کیلئے انسان اپنی زندگی کا ایک کثیر حصہ اس کی تلاش میں لگا دیتا ہے، جبکہ اس محبت کو پانا انتہای آسان ہے. وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر بجا لاتا رہے اور ہر حال میں خدا کے بندوں کا خیال رکھے. اور اس تمام عمل کے ساتھ ساتھ خدا واحد سے کامل اور اکمل ہدایت مانگتا رہے.

دعا ہے کے رب تعالیٰ ہمیں اس عظیم جذبے، اس احساس اور اس خوبصورت نعمت کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کی اور اپنانے کی ہمّت و قوت و عقل و فہم عطا فرماے. آمین

No comments:

Post a Comment

You May Disagree, Its Just a Point of View
So Please Don't Use Abusive Language