Covid یا کرونا وائرس جس نے تاحال اپنی آمد سے لے کر اب تک دنیا میں تہلکہ مچایا ہوا ہے. چین کے شہر Wuhan سے پھوٹنے والا یہ عذاب اب تک نجانے کتنے لوگ اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، لیکن پھر بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق، اب تک پوری دنیا میں تقریباً تیس لاکھ کے قریب لوگ لقمہ اجل ہو چکے ہیں-
دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس چھوٹی سی مخلوق کے آگے زیر ہو چکی ہیں، جبکہ ان ممالک میں جدت کی ریل پیل ہے- سپر پاور، ایشیائی ٹائیگر اور ناجانے کتنے ہی خوبرو القابات سے نوازے جانے والے یہی یورپی، امریکی اور ایشیائی ممالک اب تک کی کوششوں کے باوجود یہی کرسکے ہیں کہ لاک ڈاؤن کردو، کرفیو لگا دو، اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو جو، بلا ضرورت باہر نہ جاؤ، بار بار ہاتھ دھو- گوہ کہ اب بہت سے ملکوں میں ویکسینیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن پھر بھی یہ وائرس لوگوں کے کنٹرول میں نہیں آرہا بلکہ بھارت میں تو Double Mutant نامی ایک نیا وائرس نکل آیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے حالات بہت خراب ہیں-
لیکن کیا یہ کورونا وائرس صرف ایک بیماری ہے یا ہماری لئے ایک لمحہ فکریہ، ایک سوچنے کا موقع کہ ہم اپنی اپنی زندگیوں پر غور کریں، اس کو سدھارنے کی کوشش کریں- یقیناً آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس مصیبت کی گھڑی میں کیا باتیں کر رہا ہوں، کہاں کے قلابے کہاں ملا رہا ہوں- مگر کچھ پل کیلئے میری بات پر ذرا دھیان دیں- اس کرونا لاک ڈاؤن سے پہلے ہم اپنی مصروف زندگی میں سے کتنا وقت اپنی فیملی کیلئے نکل پاتے تھے، کتنا وقت خود کیلئے اور کتنا وقت رب کیلئے نکل پاتے تھے؟
اس کرونا نے ہمیں اس طرف دھکیل ہی دیا ہے؛ آج ہم گھروں میں محصور ہیں تو اپنے گھر والوں کے ساتھ ہیں، Work from Home ہی سہی لیکن کھانے پر تو گھر والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور شام کو بھی کوشش ہوتی ہے کہ چھٹی سے پہلے کام ختم ہوجاے تاکہ لیٹ نہ بیٹھنا پڑے اور وقت گھر والوں کے ساتھ گزرے- پھر ان حالات کے پیش نظر رب کے ساتھ بھی خاصا تعلق استوار کیا جا رہا ہے، گویا کہ رب کو منایا جا رہا ہے- دعایئں مانگیں جا رہی ہیں، عبادات میں وقت لگایا جا رہا ہے کہ کسی طرح یہ بلا، یہ آفت ٹل جائے اور ہم پھر سے نارمل زندگی کی طرف لوٹ آیئں- ادھر وہ ڈاکٹر بھی جو ہڑتالیں کرنے میں ماہر تھے، اپنی اخلاقی ذمہداری کے ایسے نشان قائم کر رہے ہیں کہ ہر طرف انھیں ملکی سرحدوں کے محافظوں سے بھی زیادہ عزت سے نوازا جا رہا ہے اور پولیس جو تقریباً ہر ملک میں کسی حد تک بدنام ہوتی ہی ہے، وہ بھی آگے بڑھ کر لوگوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر لئے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے-
غالباً اس کرونا نے انسانیت کو قریب کر دیا ہے- قریب؟ کیا ہم دور تھے اور دور بھی کس سے؟ فیملی اور بیوی بچوں سے، دوستوں سے یا فلاحی کاموں سے یا پھر اپنے آپ سے؟ اچھا تو آپ رب سے دوری کی بات کر رہے ہوں گے؟ ارے دور تو ہم اب ہیں؛ کسی سے ہاتھ نہیں ملا سکتے، گلے نہیں مل سکتے، کسی دعوت پر نہیں جا سکتے، دوست نہیں آ سکتے اور بہت ساری دیگر ممنوعات ہیں-
شاید یہی ساری سوچیں اور سوالات آپ کے ذھن میں گھوم پھر رہے ہوں گے- چلیں ان باتوں پر تھوڑا غور کر لیتے ہیں- آپ کہتے ہیں کہ فیملی کیلئے ہی تو اتنی محنت کرتے ہیں تاکہ ترقی ملے اور انہیں ایک اچھا لائف سٹائل دیا جاسکے، بچے اچھے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ کر کچھ بن سکیں اور بڑھاپے کا سہارا بنیں- لیکن اس دوڑ دھوپ میں آپ کتنا وقت انکی پرورش پر لگاتے ہیں، انھیں اچھائی برائی کا فرق سمجھاتے ہیں، میل ملاپ کی تمیز دلاتے ہیں یا کبھی ان کو اپنی ثقافت اور ورثہ سے روشناس کرواتے ہیں؟
پھر دوست احباب کا قصہ تو گول ہی سمجھوں کیونکہ آپ کے مطابق جب کام پڑتا ہے تو دوست ہی تو کام آتے ہیں- لیکن کیا دوست صرف انہی موقعوں کیلئے ہوتے ہیں یا زندگی گلزار کرنے کیلئے ہوتے ہیں؟ کیا ان کا گاہے بگاہے حال و احوال پوچھنا غلط ہے؟ کیا ان کا آپ پر کوئی حق نہیں یا صرف آپ ہی حقدار ہیں؟ رہی بات فلاحی کاموں کی تو ان کیلئے بھی ہر شخص صرف ایک تمغہ جمع کر رہا ہے کہ رہتی دنیا میں اپنا بھی کوئی نام ہوجاے؛ حشر میں میرا کوئی گواہ ہوجاے-
اور پھر خود کیلئے بھی یقیناً آپ وقت نکال ہی لیتے ہوں گے؛ سوشل میڈیا جو ہے--- کتنے ہی ذرائع ہیں لطف اندوز ہونے کیلئے؛ Facebook, Instagram, Twitter, Pinterest اور YouTube تو کمال کی چیز ہے- ہے نہ؟ ان کا استمعال بری بات نہیں، لیکن ان چینلز پر آپ کتنا مثبت مواد حاصل کر پاتے ہیں؟ گانے سننے، ڈرامے دیکھنے، ٹک ٹاک دیکھنے، دوسروں کی پروفائلز میں تانک جھانک کرنے اور غیر ضروری مباحثوں کے علاوہ کیا کر لیتے ہیں؟ کتنی بار آپ کچھ اچھا سیکھتے ہیں یا کسی پر کوئی مثبت اثر ڈالتے ہیں؟
اور رب تو ہمیں یاد ہی کام کے وقت آتا ہے؛ جب کچھ چاہیے ہو یا کوئی مراد پوری کروانی ہو یا پھر کسی مصیبت سے نجات چاہیے ہو- جیسے ابھی اس کرونا نے ہمیں رب کے قریب کر دیا ہے کہ وہ خداے بزرگ و برتر ہمیں اس بیماری سے بچا لے- ہم قریب ہوگئے ہیں انسانیت کے؛ سب ایک دوسرے کیلئے دعاگو ہیں کہ رب اس آفت سے سب کو محفوظ رکھے- ہم قریب ہوگئے ہیں اپنے گھروں کے، کہ والدین کی خدمت میں زیادہ وقت لگا سکتے ہیں، بچوں کو اپنے تجربات سے دنیا کی سیر کرواسکتے ہیں؟
اپنے علم سے ان کے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں، اپنے ثقافتی ورثے کی پہچان کروا سکتے ہیں- وہ احباب جن سے ناجانے کب سے بات نہیں کرپاۓ ان سے دل ہلکا کر سکتے ہیں، ان کی خیریت دریافت کر سکتے ہیں، ان کے زخموں پر باتوں اور محبت کا مرحم رکھ سکتے ہیں-
اور رہی بات اپنی تو بہت سے معملات میں اپنی خود کی اصلاح کر سکتے ہیں، کوئی اچھی کتاب پڑھ سکتے ہیں، کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں یا بہت سے ادھورے کام پورے کرسکتے ہیں- سوشل میڈیا بھی ایک اچھی چیز ہے لیکن فائدہ اس وقت ہوگا جب ہم اس پر صرف وقت گزاری کی بجاے کچھ مثبت اور اچھا سیکھیں-
یقیناً یہ ایک لاک ڈاؤن اور مشکل گھڑی ہے، لیکن اس نے انجانے میں ہمیں قریب کردیا ہے اور ہمیں ایک موقع دیا ہے خود کو بدلنے کا، خود کو سدھارنے کا، خود کو ایک بہتر انسان بنانے کا اور اس دنیا، اس تماشہ گاہ کو ایک بہتر جگہ بنانے کا- انسان صرف کوشش کر سکتا ہے اور کوشش جاری رہنی چاہیے کیونکہ امید سحر سے ہی شمع خورشید روشن ہوتی ہے اور روشنی ہی منزل کا نشان واضح کرتی ہے- اجالا ہی اندھیرے کا سدباب کرسکتا ہے اور ہر مثبت کوشش اس اجالے کا ایندھن ہے جو نسلوں نسلوں کو دنیا و آخرت کی خوشحالی پر استوار کرتا ہے-
رب کریم ہم سب کو تمام آفات سے محفوظ رکھے اور ہمیں ایک بہتر و مثبت انسان بننے کی توفیق عطا فرماے- آمین ثم آمین
Image Courtesy:
1- Reuters
2- The Atlantic
3- Medium
4- Mama Cash
5- Ideo